رابعہ سرخ دوپٹہ اوڑھے کرسی پر بیٹھی تھی . اس کی ساس اسے بیڈ پر بٹھا کر گئی تھی . کافی دیر باتیں کرتی رہی . اس سے خالد کی .
" وہ بہت نیک ہے ' دل کا بہت پیرا ہے ' ایسا ہے ' ویسا ہے ."
وہ سر جھکائے بیٹھی رہی . الفاظ اس کے کانوں میں پہنچ ضرور رہے تھے ' لیکن نشان نہیں چھوڑ رہے تھے . باتیں سن ضرور رہی تھیں' سجھائی نہیں دے رہی تھیں . وہ گئیں' تو وہ کرسی پر آ کر بیٹھ گئی . ارمان نہیں رہے تھے تو ارمانوں کی سیج پر بیٹھنا کیسا . میک اپ نہ ہونے کے برابر تھا . چوڑیاں پہنی تھیں . بندے اور ہلکے سے کام والا شلوار سوٹ ... وہ بمشکل ہی دلہن لگ رہی تھی .
آج شام ا کا نکاح ہوا تھا . ڈیڑھ گھنٹے کے سفر کے بعد وہ گھر آئے تھے . یہ رابعہ کی دوسری شادی تھی اور خالد کی بھی رابعہ کی آنکھیں دھندلا گئیں.
پہلی شادی پر اس نے جس چاہ سے ہاتھ پاؤں رنگے تھے . دوسری شادی پر اس کا جی چاہا کہ منہ پر سیاہی تھوپ کر جنگل بیاباں میں نکل جاۓ.
وہ مر کر بھی شادی نہیں کرنا چاہتی تھی . اس نے ایک بار تیزاب پینو کی کوشش کی اور ایک بار چوہے مار گولیاں کھا لیں مگر دونوں ہی بار بچ گئی .
اسکی پہلی شادی پانچ سال پہلے ہوئی تھی ' ڈیڑھ سال چلی اور بھی چل جاتی اگر ....
اونچا لمبا جوان تھا شوکت ' اچھی شکل و صورت کا ' لیکن اسکی آنکھوں میں جال تھا ' پھندے جیسا جال ' ایسا پھندا جس سے اسکا دم گھٹ رہا تھا ' وقت نکل رہا تھا مگر دم نہیں نکل رہا تھا .
اس نے اس کا گھونگھٹ اٹھایا اور دیر تک دیکھتا رہا . پہلے وہ شرمائی ، پھر گھبرائی اور پھر خوف زدہ ہو گئی . جیسے بھیڑیے کی آنکھیں اندھیرے میں چمکتی ہیں . رابعہ کو اسکی آنکھیں ویسی ہی لگیں . وہ ٹکٹکی باندھے اسے دیکھ رہا تھا پتلیوں کو ہلائے بغیر . وہ اس کا شوہر تھا یا .....اس نے ایک ہنکارا بھرا ، دلہن کا دل جو کسی اور طرح سے دھڑک رہا تھا ' اب کسی اور طرح سے دھڑکنے لگا . اس کے نتھنوں سے دھواں سا نکلا ' جیسے لڑاکا بھینسا ہو .
" جمال سے دور رہنا ." آواز میں درندگی در آئی' جمال اس کے دیور کا نام تھا . اس نے سر ہلا دیا .