اس نے جب اسے پہلی بار دیکھا تو گنگ رہ گیا . ایسا بے مثال حسن اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا . وہ ہوا کا جھونکا تھی ' آمد بہار تھی ' اس کی غزال سی آنکھیں حشر ڈھا رہی تھیں . زلفیں تھیں کہ رات سے بڑھ کر تھیں ' لب ایسے کہ گلاب جل جائیں ' ایسا توبہ شکن حسن تھا کہ اسے یقین ہو گیا کہ بڑے بڑے شاعراسی کے بارے میں سن کر شعر کہتے ہیں اور اس سے ملنے کی حسرت سدا اپنے دل میں رکھتے ہیں کہ کب وہ بولے تو وہ اس کے لبوں سے پھول جھڑتے ہوئے دیکھیں .
ابھی اسکی آنکھیں اسکی دید سے سیراب بھی نہ ہوئی تھیں ' ابھی وہ دھڑکتے ہوئے دل کو سنبھال بھی نہ پایا تھا کہ وہ حسینہ طرح دار اسکی نگاہوں سے اوجھل ہو گئی اور اسکی آنکھوں کو وہ سونا پن عطا کر گئی کہ نظارے سارے اس جہاں کے مدھم ہوئے اور بس اسکا چہرہ بسا رہ گیا .بے شمار دن وہ مثل مجنوں سرگرداں و پریشان پھرتا رہا . گلی گلی کی خاک چھانی ' بے یار و مددگار پھرا کے کہیں سے کوچہ یار کا پتا مل جاۓ .
آخر ایک دن اسے وہ دولت کدہ مل ہی گیا مگر اسے ڈھونڈ کر وہ اور پریشان ہوا . بے شک وہ اس کے نازو حسن کا گدا گر تھا لیکن اس پر شکوہ عمارت کہ جو منہ کھول اپنی امارات کا اظہار کر رہی تھی ' کو دیکھ کر پز مردہ ہو گیا . کہاں یہ محل اور کہاں اس کا جھونپڑا . کہاں وہ ماہ پارا کہ صورت ہی نہیں ' حیثیت کی بھی شہزادی تھی اور کہاں یہ کہ گو صورت شاہ زادوں جیسی پائی تھی ' لیکن قریہ سیم و زر سے کبھی اس کا گزر نہ ہوا تھا .
کئی دن نیند اسکی آنکھوں سے اوجھل رہی . ساری رات وہ رت جگا کرتا اور کھلے آسمان تلے تاروں کو تکتا رہتا . سودائیوں کی طرح چاند کو دیکھتا رہتا . چاند کا تمنائی جو ہوا تھا . یہ رتجگے تو اسکا مقدر تھے ' دل سے اٹھتی میٹھی کسک اسکا نصیب تھی . بہت چاہا کہ اس پری چہرہ کو فراموش کر دے لیکن بے سود . ان ہی فکروں اور سوچوں میں نہ جانے وہ کتنے دن وہ غلطاں و پیچاں رہا . آخر کار ایک دن وہ اٹھ کھڑا ہوا .اس طرح اٹواٹی کھٹواٹی لئے پڑا رہنا مردوں کا شیوا نہیں اور وہ بھی عاشق مرد ' ہار ماننا ' سرشت عشق نہیں . اور ہار بھی وہ جو کھیل کا آغاز ہونے سے پہلے ہی مان لی جاۓ .عشق تو آتش نمرود میں بے خطر کودا کرتا ہے . عشق کے کوچے میں تو فرعون بھی گدا ہے . تو کیوں وہ اپنی تنگ دستی کا یوں خود ہی مذاق اڑائے. انہی خیالوں نے اس کے اندر نئی توانائیاں بھر دیں . کچھ کر گزرنے کے عزم نے اسے نڈر بنا دیا .