وہ کتنی دیر سے ایک ہی زاویے میں بیٹھی اپنی مضطرب نظریں کسی غیر مرئی نقطے پر جمائے متفرق سوچوں میں الجھی ہوئی تھی . اس کے معصوم چہرے پر اضطراب کی پرچھائیا ں اتنی واضح تھیں کہ ہر دیکھنے والی آنکھ اس کے اندرونی خلفشار اور توڑ پھوڑ سے آگاہ ہو سکتی تھی ... سفیدی مائل سرخی رنگت میں کچھ عرصے سے زردیاں سی گھل گئی تھیں . خوبصورت بڑی ، بڑی خم دار پلکوں پر ہر وقت بھیگے رہنے کا گمان گزرتا .
اتنی چھوٹی سی عمر میں زندگی کی سلیٹ پر اس نے خواہشوں ، امیدوں کے اتنے حروف رقم کر ڈالے تھے ، اتنی توقعا ت وابستہ کر لی تھیں کہ اب جب زندگی نے اسے تہی دامنی سونپی تو وہ انگشت بدنداں تھی .
وہ سیٹی پر مدھم سی دھن بجاتے بے حد مگن انداز میں کار ڈرائیور کر رہا تھا . اس کے ہر ہر انداز سے اک سکون، اک آسودگی جھلک رہی تھی . اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھوں اور وجیہ پر کشش سلونے چہرے پر اطمینان بھرا سکون ہلکورے لے رہا تھا . تھوڑی دیر کے بعد ہی وہ اپنے گیٹ پر ہارن دے رہا تھا . چوکیدار کے گیٹ کھولنے پر اس نے گاڑی پورچ میں کھڑی کی اور ایک مضبوط چال چلتا اندر کی طرف بڑھ گیا .
" شبانہ ، مما کہاں ہیں ؟" لاؤنج میں صفائی میں مصروف ملازمہ سے اس نے پوچھا .
" صاحب جی وہ مارکیٹ تک گئی ہیں . میں آپ کے لئے چاۓ لاؤں؟" صفائی کا کام اس نے وہیں چھوڑتے ہوئے پوچھا تھا .
" نہیں ، اس کی ضرورت نہیں ھے ." وہ اپنے کف لنکس کھولتا نفی میں سر ہلاتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا . شبانہ نے حسب معمول اپنے صاحب کی پرسنالٹی کو دل ہی دل میں سراہا جو اتنی ڈیشنگ تو ضرور تھی کہ وہ جب ، جب دیکھتی اس کا معصوم دل دھڑک ، دھڑک جاتا .
کمرے میں آتے ہی اس نے اپنے کندھے پر رکھے کوٹ کو سامنے صوفہ پر پھینکا ، ٹائی کی ناٹ ڈھیلی کی ، گھڑی پر وقت دیکھا تو مغرب کی ازان ہونے میں کچھ وقت ہی رہ گیا تھا . جوتے موزے اتارنے کے بعد وہ وارڈ روب سے استری شدہ شلوار سوٹ نکال کر واش روم میں گھس گیا . ٹھیک دس منٹ کے بعد وہ قریبی مسجد میں نماز مغرب کی ادائیگی کے لئے جا رہا تھا .