پھر فریدہ نے ہر فیصلہ زریں پر چھوڑ دیا کہ وہ جو چاہے گی وہی ہو گا . اگر اسے یہ رشتہ منظور ہوا تو ٹھیک ' ورنہ وہ اپنی زندگی جینے کی حقدارہے . زریں نے انھیں ہاں کر دی تھی . اسے یہ رشتہ قبول تھا . اس نے بغیر کسی کے دباؤ کے پوری رضامندی کے ساتھ اسے قبول کیا تھا . شادی کی پہلی رات ہی اس نے اپنی زندگی کا ہر تلخ سچ آذر کو بتا دیا تھا . پر شاید وہ ایک بات بھول بیٹھی تھی کہ شوہر چاہے کتنا ہی اچھا کیوں نہ ہو ' اپنی پچھلی گزری زندگی کا ایک لفظ بھی اسے نہیں بتانا چاہیے مگر اب تیر کمان سے نکل چکا تھا . زریں تو ایک اور بھول کر بیٹھی تھی .
" تم آئندہ اپنے میکے نہیں جاؤ گی ." اس کی شادی کا تیسرا دن تھا جب فریدہ بیگم نے اسے بمع بچوں کے دعوت پر بلایا تھا . ایسے موقع پر دراصل آذر کی بات اسے عجیب سی لگی تھی .
" کیا مطلب آذر ؟" وہ نا سمجھی کے عالم میں اسے دیکھنے لگی .
" میں نے کہا کہ تم اپنے میکے اور میکے سے تعلق رکھنے والوں سے کوئی رابطہ نہیں رکھو گی ."
" میں ایسے لوگوں سے قطعی تعلق نہیں رکھنا چاہتا جہاں انسانیت کی کوئی قدر نہ ہو .زریں اس میں تمہارا کیا قصور تھا جو تھمیں یوں نیلام کیا گیا . تمہاری ذات کو روندا گیا . بس تمہیں اپنا ہر تعلق ختم کرنا ہو گا ." آذر کا لہجہ دوک ٹوک تھا وہ کھڑے قد سے لرکھڑائی تھی .
" آذر ! ایسی کوئی بات نہیں تھی وہ سب ..." آذر نے اس کی بات کاٹ دی .
" بس میں کچھ نہیں جانتا . " یہ کہ کر وہ روکا نہیں تھا . باہر نکل گیا تھا جبکہ وہ پیچھے بھربھری دیوار کی طرح نیچے بیٹھتی چلی گئی تھی اس قربانی پر اسے نہ فریدہ بیگم کی طرح رونا آیا تھا نہ ہنسی .
سلیقے طریقے والی زریں کو نہ دنیا کا سلیقہ آیا نہ طریقہ . اپنوں نے بھی اس سے قربانی لی تھی اور اب شوہر نے بھی . اس کے نصیب میں صرف قربانیاں ہی آئی تھیں . پہلے میکے کی خاطر اس نے قربانیاں دیں اور اب سسرال کی . عورت ہمیشہ سے ہی قربانیاں دیتی آئی ہے . اپنے کیا پرائے کیا ' ہر کوئی عورت کی ہی قربانی لیتا ہے . یہ جانے بغیر کے وہ بھی تو گوشت پوست کی بنی ایک نازک مخلوق ہے . اس کے سینے میں بھی دل ہے . کب تک زریں جیسی عورتیں کبھی میکے کی خاطر اور کبھی سسرال کی خاطر قربانیاں دیتی آئیں گی . کب تک ؟ اس سوال کا شاید کسی کے پاس کوئی جواب نہیں ہے .