تند و تیز ہوا سیٹیاں بجاتی صحن میں چکراتی پھر رہی تھی . رات کے اندھیرے نے پورے کرگت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا ' ایسے کے بڑے بڑے چراغوں کی روشنی بھی نا کافی معلوم ہو رہی تھی . آج رات بہت اندھیری تھی . اندھیری اور ڈراونی. ستارہ اور ادینہ نے تو قسم کے کھانے تیار کرنے کے بعد بھی ابھی سانس بھی نہ لیا تھا کہ دروازہ کھٹکھٹایا جانے لگا . پھر نذر کی آواز آئی. وہ ماں کو مہمانوں کی آمد کی اطلاع دے رہا تھا . گھر کے پچھواڑے میں گھوڑے باندھنے کے بعد مہمان اندر آ گئے . ماں نے جلدی سے ستارہ کو اندر کمرے میں دھکیلا اور خود مہمانوں کی پیشوائی کے لئے باہر نکل گئی .
" یہ سب کیا ہو رہا ہے ؟" ستارہ نے بے حد حیرانی سے سوچا . ادینہ جب کچھ دیر بعد واپس آئ تو اس کے ہاتھ میں ایک بیش قیمت اغوانی لباس تھا . "فورا اسے پہن کر تیار ہو جاؤ بیٹی !" اس نے نظریں چراتے ہویے کہا . کیا وہ وقت آ پہنچا کے ماں کو اس سے نظریں چرانی پڑ رہی تھیں ؟ کیا اس کا بھائی اپنے غصّے کی طرح اپنے مقدر کا بھی تیز نکلا تھا .
" ماں ! ضیافت کی تیاری مکمل ہنے ؟" نذر کی آواز میں تازہ ڈھلے سونے کی اشرفیوں کی سی کھنک تھی .
ماں لباس کی طرف اشارہ کرتے ہویے اسے جلدی کرنے کا کہہ کر باہر نکل گئی تھی . آخر اس کے دریا پر جانے کے بعد ایسا کیا ہو گیا تھا کہ ماں اس کے ساتھ ایسا سلوک کر رہی تھیں !! سواۓ اس کے کہ اس نے میلے پر جانے کی ضد کی تھی . اسے اپنی کوئی غلطی یاد نہیں آ رہی تھی . تھوڑی دیر رونے کے بعد اس نے اپنی ضد چھوڑ دی . اور سہ پہر تک اماں کے ساتھ قالین بنتی رہی تھی . ماں خوش نہیں تھی لیکن اس نے اس کے بالوں میں خود ریشمی رومال باندھ کر ان کو سنوار دیا تھا اور اسے دریا کی طرف سیر کے لئے جانے کی اجازت دے دی تھی .
اور اب ؟
وہ لباس کے ریشم پر انگلیاں پھیرتے ہویے ساتھ والے کمرے سے آنے والی آوازیں سن رہی تھی . ہلکے ہلکے قہقہوں کی ' برتنوں کے کھنکنے کی ' شوربہ پینے کی آوازیں ... لیکن دراصل وہ ان کی آوازوں سے بھی پرے کہیں اور کھوئی ہوئی تھی . اسے اپنے بابا کی یاد آ رہی تھی . اور ان سے بھی زیادہ دادا کی . دونوں اسے چھوڑ گئے . اس کا دل چاہا وہ بھاگ کر ان کی قبر پر جا کر ان کو آواز دے . ان کو بتاۓ کہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے . وہ بے یقین تھی ... سخت حیران ... کاش! وہ دریا پر نہ جاتی . کاش ! وہ سارا وقت ماں کے پاس رہتی ' تو ماں ایسا فیصلہ نہ کرتی . اور اگر کرتی تو اسکی وجہ ضرور بتا دیتی .