"ایکسکیوزمی ! یہ تم ہمیشہ مجھ سے ایسے لہجے میں کیوں بات کرتے ہو ' جیسے تمہارے خراب حالات کی میں ذمہ دار میں ہوں ؟"
" تم نہ سہی ." وہ اس کے گلہ آمیز لہجے سے متاثر ہویے بنا الزام لگانے والے لہجے میں بولنے لگا .
" تمہارے والد جیسے بڑ ے لوگوں کا ہاتھ ضرور ہے . انہی جیسے امرا ہم جیسے غریبوں کا حق مارتے آئے ہیں . تم پھولوں کی سیج پر زندگی گزارنے والوں کو کیا معلوم ہم کانٹوں پر زندگی کیسے بسر کرتے ہیں ؟"
شدت جذبات سے اس نے ٹیبل پر بایاں ہاتھ مارا . اردگرد موجود لوگوں نے بری طرح چونک کر ان کی میز کی جانب دیکھا تو وہ خفیف سا ہو گیا . پھر ہلکا سا کھنکار کر بالکل سیدھا ہوا . لیلی اس بار کچھ نہیں بولی بس خاموش مگر سوچتی ہوئی نگاہوں سے اس کا چہرہ دیکھتی رہی . گویا جو کچھ ذہن میں ہے اس کا " جواب " قیس کے چہرے سے اخذ کرنا چھ رہی ہو .
" کیوں ؟" ویٹر بھاپ اڑاتی خوشبو دار مگر کڑوی مہک والی کافی کے مگ بمعہ براؤنی میز پر رکھ گیا . تب ہی قیس نے اسکی مستقل خاموشی سے اکتا کر اسے بولنے پر اکسایا ." کیا ہوا ؟ کیا میرے الفاظ کی سچائی جناب کی طبع نازک پر گراں گزری ہے ؟"
" نہیں قیس ! " بلا آخر وہ ایک طویل لمبی سانس بھرنے کے بعد ہڑبڑا کر بولنا شروع ہوئی .
" میں صرف یہ سوچ رہی تھی کہ اگر تم نے سچ بولنے کی ٹھان ہی لی ہے تو کیوں نہ میں بھی اپنا ایک سچ تمہارے سامنے واضح کر ہی دوں ؟" اس نے اتنا کہہ کر بڑے غور سے قیس کی خود پر مرکوزنیم وا آنکھوں میں جھانکا .
" تمہاری سچائی ؟" قیس کی آنکھوں سے الجھن مترشح ہونے لگی ." کیا ہے تمہاری سچائی ؟"
" وہ نہیں ہے . جو شاید تم سمجھ بیٹھے ." وہ جیسے خود پر ہنسی .
" میں کیا سمجھ رہا ہوں تمہیں ؟" اس نے نا سمجھی سے استفسار کیا .
" تم نے ایک رئیس زادی سمجھا تھا نا مجھے ؟"اس نے سنجیدگی سے سوال کیا .
" ظاہر ہے ." قیس تیزی سے بولا ." وہ تو تم ہو ... تمہارے والد عبیداللہ صدیقی کوئی ایسے معمولی انسان بھی نہیں ." وہ طنزیہ بولا .
" بے شک وہ معمولی انسان نہیں مگر ..." اس نے اتنا کہہ کر توقف کیا .
" مگر کیا ؟" قیس نے بے قراری سے پوچھا .
" صاف صاف بات کرو لیلی یہ اگر مگر کیا کر رہی ہو ؟" وہ سر تا پا بے چین ہو گیا .