دادی پہلے تو اس کایا پلٹ کی ممکنہ وجوہات سوچتی رہیں پھر وجہ وکی سمجھ میں آ ہی گئی . انہوں نے بیٹے سے بات کرنے کا فیصلہ کر لیا .
چھٹی والے دن جب بچے گھروں سے اور مرغیاں ڈربوں سے آزاد گھوم رہی تھیں ' دادی نے اپنے بیٹے کو رازداری سے سارا معاملہ بتایا . انہوں نے ساری بات غور سے سنی ' منہ میں دبے پان کی پچکاری کے لئے کھٹولے کے نیچے رکھے اگال دان کھسکایا ' پان کی پچکاری اس میں مار کر شہادت کی انگلی اور انگوٹھے سے بانچھیں صاف کر کے پر خیال انداز میں گویا ہویے .
" لونڈے کی حرکتیں دو چار دن سے میں بھی دیکھ رہا ہوں . یہ روز چھیل چھبیلا سا بنا رہتا ہے . میں نے سوچا نئی نئی جوانی ہے ' سجنے سنورنے کا شوق ہو ہی جاتا ہے . ہم بھی اس عمر میں گلے میں لال رومال ڈال کر پھرتے تھے ." گزرے زمانے کی یاد میں ایک روشنی کا کوندا سا لپکا تو فیض احمد کا سانولا سا چہرہ چمک اٹھا .
" تمہارے دور کے لوگ بہت سیدھے تھے فیض احمد ! کیا لڑکے ' کیا لڑکیاں ' کیا مرد ' کیا عورتیں. اب تو لڑکے لڑکیوں سے زیادہ ٹیڑھے ہیں اور لڑکیاں لڑکوں سے چار ہاتھ آگے ہیں ." دادی نے اپنے جھریوں زدہ چہرے اور چھاؤں میں ہویے سفید بالوں کا سارا تجربہ اپنے فلسفے میں گھول کر بیان کر دیا .
" ابھی تفتیش کر لیتے ہیں ' ایسی کیا بات ہے ."
فیض احمد نے فیصلہ کن انداز میں کہا .
" ادھر آ پپو " گھر میں پانی پینے کے لئے آئے تو انہوں نے دھر لیا . " جا اپنے بھائی کو بلا کر لا ' نکڑ پر بیٹھا ہو گا دوستوں کے ساتھ ."