آج تیسرا دن تھا جب بابر عرف بوبی کھرچ کھرچ کر یوں شیو بنا رہا تھا کہ مانو اپنے چہرے کی سانولی سلونی کینچلی اتار کر اندر سے کوئی نئی نویلی ' نوزائیدہ بچے جیسی گلابی گلابی کھال برآمد کر لے گا . بات صرف اتنی سی نہیں تھی کہ وہ شیو بنانے میں آدھا گھنٹہ اور ڈھیروں ڈھیر کریم استعمال کر رہا تھا یا شیو کی آڑ میں اپنا چہرہ ادھیڑنے کے درپے تھا . معاملہ اس سے بھی بڑھ کر تھا .
کہاں وہ ہفتے کے ہفتے نہانے والا اور مشکل سے ہفتے میں دو بار کپڑے بدلنے والا ' وہ بھی صرف شرٹ اگر بہنیں بد بو بد بو کا کہہ کر دہائیاں نہ دیں تو جینز تو پورا مہینہ چڑھا کر رکھے ' کچھ بہنوں کی باتیں ' کچھ اماں کی صلواتیں، ہفتے بھر میں بیچاری اتر ہی جاتی شاید دعائیں بھی دیتی تو کپڑے بدلنے اور نہانے دھونے کا ایسا چوراگر غسل خانے میں روزانہ ایک ایک گھنٹہ لگاے' استری جما جما کے یوں کرے کہ صدیوں پرانا جوڑا بھی نیا لگنے لگے تو ...تو ؟ تو عقل کے اندھے کو بھی دال میں کچھ کالا نظر آنے لگے گا اور گانٹھ کا پورا بھی یا سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ دو دن میں کیا ماجرا ہو گیا کہ جنگل کا جنگل ہرا' بلکہ ہرا بھرا ہو گیا .
پھر دوسری طرف دادی تھیں جو نہ تو عقل کی آندھی تھیں نہ ہی گانٹھ کی پوری . ماشاللہ سارے حواس سلامت اور اور سارے ہوش قائم تھے ' کیسے چوکنی نہ ہوتیں . برآمدے میں جھلنگا سی چارپائی پر لیٹے لیٹے ہر ایک کے معمولات زندگی کا جائزہ لیتے رہنا ان کا محبوب مشغلہ تھا اور وہ " ہر ایک " بھی بھلا تھے کون ' بیٹا ' بہو ' پوتے اور پوتیاں .