SIZE
1 / 37

"ارے ۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ ذرا دھیان سے یہ میرے جاگرز ہیں۔" اس کے دوست اور روم میٹ رمیز نے دھاڑتے ہوئے فراز کے ہاتھ سے اپنے اکلوتے اور مہنگے ترین جاگرز جھپٹنے والے انداز میں چھینے۔

" ا وہ۔۔۔ معاف کرنا۔" فراز نے مصنوعی تاسف سے مسکرا کر اپنے لیدر کے سینڈل بیڈ کے نیچے سے نکالے۔

" گاؤں جانے کی خوشی میں حواس ہی گم ہو جاتے ہیں تمہارے تو۔“ رمیز اس کی جلد بازی سے بری طرح چڑا ہوا تھا۔

اسے فراز کی کمینگی پر بے تحاشا غصہ آ رہا تھا جس نے یہ ویک اینڈ اس کے ساتھ گزارنے کا وعدہ کیا تھا لیکن گاؤں کے چکر میں وہ سب کچھ بھول جاتا تھا۔

" اے خبردار! میرے گاؤں کو کچھ مت کہنا۔ " فراز نے انگلی اٹھا کر دھمکی دی۔

" ورنہ۔۔۔۔" رمیز کو بھی ایسا تاؤ آیا کہ برداشت کو رخصت دینی پڑی۔ دونوں بازو کمر کے دائیں بائیں جما کر لڑنے کو تیار کھڑا تھا۔ فراز نے پلٹ کر رمیز کے انداز کو دیکھا۔ چند لمحے آنکھیں گھمائیں، مسکراہٹ کو گھنی مونچھوں کے سائے سے باہر نہ نکلنے دیا اور خود بھی رمیز کے سامنے جا کھڑا ہوا اور ڈرامائی لہجے میں بولا۔

" ورنہ تمہیں بھی اپنے ساتھ گاؤں لے جاؤں گا۔" دھمکی والا انداز برقرار رکھا تھا۔

" شیور۔۔۔۔" رمیز نے مشکوک انداز میں گھورا ۔

" آف کورس! میرے گاؤں کے دروازے ہر ایک کے لیے کھلے ہیں۔" فراز نے شاہانہ انداز میں دونوں بازو پھیلا کر گول گھومتے ہوئے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔

" تو اس سے پہلے کیوں نہیں پھوٹے تھے، کلو خون جلا دیا میرا ۔ تمہیں یاد ہے کہ یہ ویک اینڈ تم کو میرے ساتھ گزارنا تھا۔" رمیز نے شکوہ بھری ملامت سے فراز کو شرمندہ کرنا چاہا۔

" لو تمہارے ساتھ ہی تو گزاروں گا اپنے گاؤں میں۔" فراز شرارت بھرے انداز میں کہہ کر ہنس پڑا تو رمیز نے بھی ہنستے ہوئے اپنا بیگ نکالا اور بیگ میں کپڑے ٹھونسنے لگا۔

" اگر میرے ساتھ جانے کو اتنا دل چاہ رہا تھا تو پہلے ہی بتا دیتے۔ اس میں رونے کی کیا بات تھی۔ " فراز نے اس کی پھرتی پہ رمیز کو چھیڑا ۔

ہاسٹل کی عمارت سے باہر نکلتے ہی مئی کی تپتی جھلستی گرمی کے ساتھ ہی سورج کی تیز اور قدرے ناراض کرنوں نے اس کڑے وقت میں باہر نکلنے کی سزا دی۔

" یار! ہمارے ہاں تو ایسی گرمی نہیں ہوتی۔ " رمیز نے ہانپتے ہوئے بیگ کو اپنے سر پہ اٹھا لیا۔ ڈاکٹر بننے تک میرا رنگ بھی تمہارے جیسا ہو جائے گا۔ " رمیز نے روہانسی آواز میں مسئلہ پیش کیا۔

" کیا۔" فراز چلتے چلتے چونک کر رکا۔ یہ میرے جیسا سے کیا مطلب ہے تمہارا ۔ " موسم کے ساتھ ساتھ فراز کے بھی تیور بدل گئے۔

"سوری یار! ان فیکٹ گرمی کی وجہ سے میرا بھی دماغ گھوم گیا ہے، کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا۔“ رمیز سچ مُچ بوکھلا گیا تو فراز رومال سے چہرہ صاف کرتے ہوئے مسکرا دیا۔