رات کی رم زدہ (وحشت ناک) جھولی میں دیو قامت مجسمہ نفس کود پھاند کر فلک پاش قہقہے لگا رہا تھا۔
رم زدہ شب فلک تاخاک نام نہاد انسانوں کےچار اطراف رقصاں تھی۔
اتر کر گھوم رہی تھی۔
گھوم کر لپٹ رہی تھی۔
اور بجھ کر' جل کر بھڑک رہی تھی۔
کیونکہ یسی رات ناصرہ کی چیخ گھر کے کونے کونے میں پھیل کر زمین کے ذرے ذرے کو گواہ بنا بنا ساتھ لا رہی تھی۔
کیونکہ یہ عاصرہ ہی تھی جو فیروزہ کی اماں تھی۔
اور یہی عاصرہ تھی جو صاحب اولاد نہ ہو سکی تھی۔ کیونکہ وہ شادی شدہ نہ ہو سکی تھی۔
عافیہ نے اپنی لاڈلی اکلوتی بیتی کے منہ سے خون کی لکیر نکلتے دیکھی تو اس کے اندر سے ایک دم وحشت کا ریلا کود پھاند کر اسے پیچھے بہت پیچھے کی طرف دھکیلنے لگا۔
جیسے دلدل کا سوتا پھوٹا ہو۔ جو اتنی اہستگی سے' اتنے توازن سے گہرے پاتال میں لے جاتی ہے کہ دھنسنے والے کو خبر ہی نہیں ہوتی کہ وہ اندر ہی اندر دھنس رھا ہے یا دلدل کو اپنے ساتھ لیے اوپر اُٹھ رہا ہے۔
فیروزہ مد ہوش تھی۔۔۔ بے ہوش تھی یا۔۔۔یا۔۔۔۔
اس یا کے اگے بہت کچھ تھا۔۔ یا اس کے پیچھے بھی بہت کچھ تھا۔
اس کی بیٹی آنکھیں نہیں کھول رہی تھی۔ تین بھائیوں کی اکلوتی بہن۔۔۔ فیروزہ۔۔۔ لیکن تین بیٹوں کی ماں کی آنکھیں کھل سی گئی ہیں۔ اسی بیٹی کی ماما اس کے پیروں کی طرف کھڑی ہے' ساکت ' خاموش ' اسی بیٹی کی اماں جانیاس کے سرہانے بیٹھی باؤلی سی ہو رہی ہے۔
" فیروزہ"۔ یس کی اماں جان نے چیخ ماری۔
" اٹھیں۔۔۔ بھابی! جلدی فون کریں ڈاکٹر کو۔۔۔دیکھیں اس کو کیا ہو رہا ہے' یہ ایسے کیسے' اسے کیا ہوا ہے'بھابی۔۔۔ فیروزہ!" ایک پاگل دوسری پاگل کو جھنجھوڑ رہی تھی۔
تیسری صحیح الدماغ بشر ان دونوں کو دیکھ رہا تھا۔ خاموش۔۔۔ جواب الجواب۔
خون کی ایک لکیر اس کی ناک میں سے بھی نکل رہی تھی۔
نقص کی ایک لکیر اس کے نفس پر بھی پھری تھی۔
فیروزہ کے دماغ کی رو یقینی طور پر کل رات غلط سمت بھاگی دوڑی ہو گی۔
غلطی کی طرف ۔۔۔ نا سمجھی کی طرف۔۔۔لا علمی سے۔۔۔
اس کی ماما کی رو بھی بھاگی دوڑی تھی۔۔۔ غلطی۔۔۔ غلط ۔۔۔ گناہ کی طرف۔
" فیروزہ!" ماں اس کا سر گود میں رکھ کر اسے چوم رہی تھی' اسے مار رہی تھی' اس کے کانوں کے پاس چِلا رہی تھی۔