لیکن آج' اتنے سالوں بعد وہی چھوٹی غلطی ان کی بہو کر بیٹھی تھی۔ اور بد قسمتی یہ تھی کہ اس کی ماں' جہاں آرا کی ماں کی طرح اسے سمجھانے کی بجائے چھوٹی سی بات کو بڑھا رہی تھی۔
وہ اچھی طرح جانتی تھیں کہ جب بیٹیاں ماں باپ کا گھر چھوڑ کر دوسرے گھر جاتی ہیں تو یہ ان کے لیے زندگی کی ایک نئی شروعات ہوئی ہے۔ اور بلکل اسی طرح جیسے بچپن میں انہیں بے انتہا نگہداشت کی ضرورت ہوتی ہے۔ قدم قدم پہ انہیں سمجھانا پڑتا ہے۔ بالکل ویسے ہی شادی کے بعد بنا گھر اور ان کی ذمہ داریوں کو سمجھنے اور ان سے نبٹنے کے لیے بھی انہیں ایک بہترین دوست اور رہنما کی ضرورت ہوتی ہے۔ لیکن جس قسم کا رویہ ردا کی امی نے ان کے گھر دکھایا تھا اس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ ردا کی مدد تو دور کی بات' الٹا اس معاملے کو بڑھا سکتی تھیں۔
انہیں اپنا گھر بہت عزیز تھا اور اپنا بیٹا اپنے گھر سے بھی زیادہ' اسی لیے انہیں اپنی بہو بھی عزیز تھی۔ وہ صرف ایک چھوٹی سی بات پہ یوں اپنے بیٹے کا گھر اجڑتا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ نہ ہی بیٹے بہو کی پریشانی ان سے برداشت ہو رہی تھی۔انہیں گلزار بیگم سے اب کسی قسم کی کوئی توقع نہ رہی تھی۔ انہوں نے تو الٹا معاملے کو سنگین بنانے کی کوشش کی تھی۔ کیونکہ جس قدر غصے میں وہ تھا' اس سے کچھ بعید نہ تھا کہ وہ مزید بگڑ جاتا۔
" مجھے خود ردا سے بات کرنی ہو گی۔ امی نے مجھے سمجھایا تھا کہ شادی کے بعد بچیوں کا سسرال ہی ان کا اصل گھر ہوتا ہے۔ ان کی حقیقی جائے پناہ ' اور ساس سسر اس کے ماں اور باپ کی حیثیت رکھتے ہیں۔
سسرال اور میکے کا فرق میں ختم کروں گی۔ میں ردا کو وہ سب سمجھاؤں گی جو میری ماں نے مجھے سمجھایا' مین اپنی پوری کوشش کروں گی کہ میری طرح ہی ردا پہلی ٹھوکر پر ہی سنبھل جاۓ۔ اور یہ غلطی اس کی بھی آخری غلطی ثابت ہو۔ اللہ میرے داور اور ردا کو ہمیشہ خوش رکھے۔"
وہ سوچتے ہوۓ کچن کی طرف چل دیں۔
" اور پھر مجھے اماں کا قرض بھی تو اتارنا ہے۔ اس سے بہتر موقع بھلا اور کیا ہو سکتا ہے۔" دل ہی دل میں مطمئن ہو کر فیصلہ کرتے ہوۓ وہ رات کا کھانا بنانے لگیں' ایک مرتبہ پھر سے خوشیوں بھرے گھر کی نئی امید لیے۔
#۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔#