بعض لوگوں پر قدرت مہربان ہوتی ہے۔ بے حد اور بے شمار۔ میرا شمار بھی ایسے ہی فرار میں ہوتا تھا۔ ہمارا گھرانہ کالونی کا معتبر گھرانہ سمجھا جاتا "صدیقی ہاؤس" ایک مستند شریف گھرانہ سمجھا جاتا۔ پابند صوم و صلوة، حسب نسب اعلی۔۔۔۔۔۔ معزز اور نجیب الطرفین۔ ابا جی کی رائے بڑی مستند سمجھی جاتی اور ان کے مشوروں کو اولیت دی جاتی۔
میں تین سگھڑ، با اخلاق، باپردہ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور سب کی امیدوں کا واحد مرکز بھی۔ امی تو مجھے دیکھ کر جیتی تھیں۔ میں نے بھی ان کی خواہشات اور امیدوں کو مقدم جانا تھا۔ اکلوتا نور چشم ہونے کی وجہ
سے ابا میرے چال چلن پر خاص نظر رکھتے تھے۔ اسکول جانے سے پہلے مجھے اصول دین' فروغ دین' چھے کلمے اور مختلف سورتیں ترجمہ کے ساتھ زبانی یاد کروا دی تھیں۔ یوں شکل صورت، تعلیم ، اخلاق کردار میں ہمیشہ ہمیشہ نمایاں و منفرد رہا اور اپنے ہم عمروں کے لیے مثال بھی۔
اب جبکہ میں بچپن کی حدود پھلانگتا لڑکپن اور نوجوانی کی شوریده سری سے بچتا بچاتا' باشعور دور میں داخل ہو چکا تھا۔ تو روز میری بہنیں میرا سہرا سجانے کے ارمان سجاتیں اور تقریبا روز لڑکی دیکھنے کے لیے جاتیں لیکن میں جو اصل کردار تھا اسے ثانوی درجہ دیا گیا تھا یعنی خود ہی لڑکی دیکھتی تھیں اور مسترد کر دیتیں۔
"بھئی بڑا کچھ دیکھنا ہوتا ہے، کردار' اخلاق' خاندان اور سلیقہ۔۔۔۔" رافیہ آپا انگلیوں پر خوبیاں گنواتیں۔
" خوب صورتی' تعلیم۔۔۔۔" کرن اور مہوش تڑکا لگاتیں۔
" ارے بھئی ہٹو! بس ایسی ہو کہ آتے ہی رونق گا دے۔ " آمی پیار سے میرے بال سہلاتیں اور میں جھینپ کے اٹھ جاتا۔
لیکن دو سال گزر گئے۔ گوہر مقصود مل ہی نہیں رہا تھا۔ میں اکتانے لگا تھا۔ میرے دوست' کولیگز' کزنز سب بال بچے دار ہو گئے تھے اور میں یعنی عبداللہ اببی تک دیوانہ پھر رہا تھا۔
ہر لڑکی پر بہنوں کا اختلاف ہوتا اور میں مشرقی بیٹا ہونے کا ثبوت دے دے کر تھک چکا تھا۔ انہی بے کیف دنوں میں مجھے وہ نظر آئی ۔ ثنا رحمان دوسری برانچ سے ٹرانسفر ہو کر آئی تھی۔
روشن گندمی رنگت' سنجیدہ مزاج اور جاذب نظر۔ وہ ایک بااعتماد اور سلجھی ہوئی لڑکی تھی۔ سب سے بات چیت رکھتی' معاملات ڈیل کرتی' لیکن ایک حد میں رہ کر' وقار کے ساتھ ۔ میں نجانے کب اس سے متاثر ہوا کہ دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر اسے حال دل سنا بیٹھا اور شادی کی پیش کش کردی۔ وہ بھی شرمانے کے بجائے سنجیدگی سے مجھے دیکھتی رہی اور کہا کہ اس کے