پانی کا پائپ لگا کر سیڑھیاں دھوتی شفق کا گہرا نیلا ٹراؤزر پاؤں سے زرا اوپر تک گیلا ہو چکا تھا ' سفید اور نیلی لمبی قمیض کا دامن بھی پانی کی پھوار سے بھیگ رہا تھا اور وہ بچوں کی طرح خوش ہوتی مزید جوش سے سیڑھیاں دھونے لگی۔ وقفے وقفے سے پانی کے پائپ سے منہ پر بھی پانی ڈال لیتی۔
نیچے کے باورچی خانے سے پریشر ککر کی سیٹی کی آواز آ رہی تھی' صاف ستھرے صحن میں ترتیب سے رکھے گملوں میں گلاب اور موتیا کے پھول تازہ تازه دیئے گئے پانی سے دھل دھلا کر اور بھی نکھر گئے تھے۔ وہ سیڑھیاں دھو کر پائپ سمیٹ کر وائپر سے فرش خشک کر رہی تھی جب عدیل گھرکے اندر داخل ہوا۔ اس کا حلیہ دیکھ کر مسکرائے بغیر رہ نہ سکا۔
" تم یہ سیڑھیاں دھو رہی تھی یا خود کو۔۔۔۔۔۔ ایسے قطرے ٹپک رہے ہیں جسے ڈبکی لگا کر نکلی۔" وہ اس پر جمله اچھالتا کچن کی طرف بڑھنے لگا۔ اس کے ہاتھوں میں موجود شاپر دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ کوئی آ نے والا ہے' اس نے وائپراپنی جگہ پر رکھا اورامی کو بتا کر نیچے آ گئی۔
" کوئی آرہا ہے کیا؟ " اس نے تائی امی کے آگے سے ہرا دھنیا اٹھایا اور خود کاٹنے لگی۔ انہوں نے تشکر بھری نظروں سے اس کی سمت دیکھا اور خود کبابوں کا مصالہ تیار کرنے لگیں۔
”ہاں عدیل کے ماموں ممانی آرہے ہیں کراچی سے' اس مرتبہ تو پورے پانچ سال بعدآ رہے ہیں۔" تائی امی کے لہجے میں اپنے میکے والوں کے لیے بہت پیار تھا۔
" اچھا پھر تو بہت خوشی کی بات ہے' یقینا اب صباحت کی منگنی یا نکاح بھی کر دیں گی آپ۔" اس نے ہرا دھنیا کاٹ کر ڈبے میں بند کیا اور فریج میں رکھ کر تائی امی کے ساتھ کھڑی ہو کر ہنڈیا بھوننے لگی۔ " ہوں۔۔۔۔۔ اب وہ لوگ ائیں گے تو ہی فیصلہ کریں گے کہ کیا کرنا ہے۔۔۔۔۔۔ ویسے میں نے سوچا ہے کہ نکاح ہی کر دون گی اور اگلے سال صباحت کے ماسٹرز کے امتحان کے بعد رخصتی۔" تائی امی کے انگ انگ سے خوشی پھوٹ رہی تھی۔ وہ بھی گھر میں شادی کا سوچ کر خوش ہو گئی۔
" ہاۓ تائی امی' میں تو امی کو کہہ دوں گی اچھے اچھے سوٹ سلوا کر دیں۔" اس کے اس جملے پر عدیل نے مسکراتے ہوۓ اسے دیکھا' وہی بچوں والی خوشی اور وہ کتنے خلوص کے ساتھ آنے والے مہمانوں کے لیے امی کی مدد کر رہی تھی۔ کچن کے کام سے فارغ ہو کر وہ اوپر جانے لگی تو عدیل صباحت کو کالج سے لے آیا اس نے صباحت کو دیکھ کر آنکھ دبائی۔
" بہت بہت مبارک ہو۔" اور اس کے یوں کہنے پر وہ اسے گھور کر رہ گئی۔
" امی میں آپا کو لے آؤں' ان کی کال آئی تھی۔ ماموں ممانی کا سنا تو کہنے لگیں کہ مجھے اور خالہ کو لے جاو' میں پہلے آپا کو لے آوں پھر خالہ کو بھی لے آؤں گا۔"
" ہاں ہاں کیوں نہیں' میں تو پہلے ہی سوچ رہی تھی کہ تمہاری خالہ کوبھی بلا لوں ۔" انہوں نے خوشی سے اجازت دے دی' عدیل اور صباحت کی بڑی بہن راحت آپا اپنی سگی خالہ کی بہو تھیں اوردو بہت ہی پیارے بچوں کی ماں بھی۔
" آپا آئیں تو ذکی اور بانو کو اور مانو کو اوپر بھیج دینا۔ " وہ جاتے جاتے بولی۔ عدیل نے لحظہ بھرکو امی کی سمت دیکھا۔ شاید امی انہیں بھی نیچے آ کر کھانے کا کہہ دیں مگر انہوں نے ایسا کچھ بھی نہ کہا۔