SIZE
5 / 10

" میں شرمندہ ہوں۔ " وہ تیزی سے اس کے سامنے آ کھڑا ہوا۔

" مجھے پروا نہیں۔"

"تم ناراض ہو؟ " اس نے انگلی سے اس کی گیلی آنکھوں کی طرف اشارہ کیا۔

" تمہیں پروا کرنے کی ضرورت نہیں۔" رات گئے تک وہ اسے مناتا رہا۔ وہ اسے منا منا کر تھکتا نہیں تھا۔ یونیورسٹی سے ہی یہ اس کا پسندیده کام رہا تھا۔ وہ دن میں کئی کئی بار ناراض ہوتی' بات کتنی ہی معمولی ہوتی' مانتی وہ اپنی مرضی سے ہی تھی۔

"تم تھکتی نہیں ہو ناراض ہو ہو کر؟"وہ اکثر اس کے بار بار ناراض ہونے پر بار بار پوچھتا۔

" تم نہیں تھکتے مجھے منا منا کر؟"

" نہیں ' مجھے اچھا لگتا ہے تمہارا ناراض ہونا' بات بات پر لڑنا' ہزاروں بار ہزاروں سوال کرن'ا ہر بار ایک نیا انداز ' ایک نیا کھیل۔"

" میں کھیل ہوں؟"

" کھیل سے کم بھی نہیں ہو۔ تمہیں یہ سن کر اطمینان نہیں ہوتا کہ ہربار تمهارے نئے انداز کے ساتھ میری محبت کا انداز بھی نیا ہوتا ہے۔"

" آں ۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے تو لفظ " نئے" نے سوچ میں ڈال دیا ہے۔ تم اتنے متلاشی ہو نئے پن کے؟"

" اوہ۔۔۔۔۔۔ یعنی تم اپنی بات کو پھر سے اپنی مرضی کا رنگ دینے جارہی ہو؟"

" میرا خیال ہے میں تمہاری بات کی گہرائی میں جا رہی ہوں۔"

" میری بات میں کوئی گہرائی نہیں ہے' یہ صرف ایک بات ہے۔"

" اس کا مطلب کہ تمہاری باتیں بھی صرف باتیں ہی ہیں۔ صرف باتیں۔ ہیں نا؟"

"میرے پاس اتنا دماغ میں کہ یہ سب سوچوں ' لیکن تمہارا دماغ بہت گہرا ہے۔

" شاید واقعات دماغ کو گہرا بنا دیتے ہیں۔ وہ ٹھوڑی پر ہاتھ رکھ کر اپنے مخصوص انداز میں اس کی طرف دیکھنے لگی۔ دونوں بچے سو چکے تھے اور وہ دونوں لان کی طرف بنی سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔

" کیا ؟ " واصف کی شکل سوالیہ بن گی وہ جانتا تھا اس اس طرح سے دیکھنا۔

" تم بتاؤ۔۔۔۔ کیا؟" اجالا نے دیکھتے رہنے کا کام جاری رکھا۔" کچھ تو ہو گا بتانے لائق۔"

" میں نے کیا کہا اب؟ وہ حیران ہوا۔

تم نے ان میں کسی کو میسج کیا اور سینٹ آئٹم اور ان باکس میں سے میسجز ڈیلیٹ کر دئیے ۔ باقی میسجز رہنے دیے ۔ تم نے وہی میسج کیوں ڈیلیٹ کیا؟" "کون سا میسج۔۔۔۔ مجھے نہیں یاد۔"

" اداکاری مت کرو پلیز۔"

" یار! کر دیا ہو گا ڈیلیٹ۔ اس میں ایسی کون سی بڑی بات ہے۔"

" یہی میں سوچ رہی تھی کہ اسے میسج میں ایسا کیا تھا کہ خاص طور پر ڈیلیٹ کیا گیا تاکہ میں نہ پڑھ سکوں' دراصل تم نے میسج تو ڈیلیٹ کر دیا مگر ڈلیوری رپورٹ ڈیلیٹ نہیں کی۔"

واصف ایسے چونکا جیسے پکڑا گیا ہو۔ اجالا کا منہ اتر گیا۔ اسے توقع تھی کہ واصف سچ بولے گا اور ان کی ایک ہزار ایک لڑائیاں صرف اسی ایک بات پر ہوتی تھیں کے وہ اسے پہلی بار پوچھنے پر ہی حقیقت کیوں نہیں بتاتا۔