" بس اب توکل کا چھوکرا ہمیں تمیز اور ادب کی باتیں سکھائے گا۔"
"بابا سائیں میرا ادا سائیں سے بحث کا کوئی موڑ نہیں ویسے بھی جن کے دلوں پر مہریں لگ جائیں ان پر کوئی بات اثر نہیں کرتی اور ویسے ہی میں اپنے حصے کی زمینوں پر اپنا یہ خواب پورا کروں گا آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، بہتر ہوگا آپ اپنے معاملات پر نظر رکھیں مجھے میرے ارادوں سے کوئی پچھے نہیں ہٹا سکتا۔‘‘ یہ کہہ کر شاہ بخت وہاں سے نکلتا چلا گیا ' خاور اس کی جرات مندی اور حق بات پر دانت پیس کر رہ گیا۔
" بابا سائیں! آپ نے اس کو بہت چھوٹ دی ہوئی ہے' اس کو لگام ڈالیں زرا۔"
" ارے ہاتھ ہولا رکھ پت' ابھی جوان خون ہے نیا نیا نو جوانی کا جوش ہے وقت کے ساتھ خود سمجھ آ جائیں گی ' تو فکر نہ کر یہ بتا وہ محمد بخش والی زمینوں کا کیا بنا؟" اس کے بعد وہ دونوں اس معاملے پر بات چیت کرنے لگیں کہ ان کی نظر بشیراں بی بی اور خاور کی بیوی (مہرو) پر پڑی۔
"اور تم دونوں یہاں کیا کر رہی ہو؟ چلو اندر، اس طرح زال کا مردوں کے سامنے دندناتے پھرنا ہمارے یہاں معیوب سمجھا جاتا ہے آئندہ میں تم دونوں کو باہر نکلتے نہ دیکھوں، اپنی اوقات میں رہو تو بہتر ہے سمجھی؟ بخت تو نا سمجھ بچہ ہے مگر بشیراں تجھے تو عقل ہے ناں، تیرا اس طرح سے باہر نکلنا، عام لوگوں میں اٹھنا بیٹھنا کتنا برا سمجھا جاۓ گا گوٹھ والوں نے دیکھ لیا تو کیا سوچیں گے؟ آئندہ خیال رکھنا اور توں چھوری، کتنی بار کہا ہے میرے سامنے اپنی شکل مت دکھایا کر تجھے دیکھتا ہوں تو اپنا مرحوم بیٹا یاد آ جاتا ہے چل یہاں سے دفعہ ہو' یاد رکھو تو یہاں خون بہا میں آئی ہے یہی کافی ہے، تجھے عزت سے رکھا ہے' دو وقت کی روٹی اور کپڑا مل رہا ہے اس سے زیادہ کی نہ تیری اوقات ہے نہ ہمارا ظرف۔" بابا سائیں کے تحقیرانہ انداز پر مہرو نے ڈبڈبائی آنکھوں سے سر کے سائیں کی طرف دیکھا جوان تمام باتوں سے بے نیاز موبائل میں لگا ہوا تھا، وہ وہاں سے دوڑتی ہوئی اندر کی طرف بھاگی تو اس کا سامنا باہر آنے شاہ بخت سے ہوا۔
"کیا ہوا بھر جائی! اس طرح کیوں رورہی ہو، پلیز مجھے بتاؤ۔" بخت نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے سامنے صوفے پر بٹھایا۔
" کچھ نہیں ابا سائیں' آنکھ میں تنکا چلا گیا تھا جس کی وجہ سے پانی نکل آیا اور تم میری فکرنہ کیا کرو میں اس عزت کے قابل نہیں میں صرف خون بہا میں آئی ایک باندی ہوں جو پوری حیاتی اپنے بھائی کے گناہ کا کفارہ ادا کرتی رہے گی۔" مہرو نے رندھی ہوئی آواز میں جواب دیا۔
"اوہ سمجھ گیا، ادا سا ئیں اور بابا سائیں نے پھر آپ کی تذلیل کی ہوگی غلطی میری ہے آپ کو اس طرح ان کے درمیان چھوڑ کر نہیں آنا چاہے تھا، آپ میرے کہنے پر ہی باہر گئی تھیں سوری بھرجائی میں بہت شرمندہ ہوں مگر آئندہ آپ کی دل آزاری نہیں ہوگی اور پلیز آپ اپنے آپ کو باندی نہ کہا کریں جو کچھ ہوا اس میں آپ کا کیا قصور، آپ کو بابا سائیں، ادا سائیں کے ساتھ نکاح کرکے لائے ہیں آپ اس گھر کی عزت ہیں آپ کا بھی اس گھر پر اتنا ہی حق ہے جتنا دوسروں کا، پلیز اپنے آپ کو مظلوم سمجھنا چھوڑ دیں ورنہ یہ ظالم دنیا آپ کوجینے نہیں د ے گی۔ انشاء اللہ ایک وقت ضرور آئے گا جب اللہ سائیں، ادا سائیں کا دل آپ کی طرف سے نرم کر دے گا' ان کے دل میں نفرت کی جگہ محبت ہو گی بس صبرو تحمل کے ساتھ اپنے منصب پر ڈٹے رہیں ۔" شاہ بخت کی باتوں نے ہمیشہ کی طرح مہرو کی ڈھارس با ندھی زندگی کی اس تپتی صحرا میں شاہ بخت کی شخصیت ہی نخلستان تھی جس کی وجہ سے وہ اب تک زندہ و پر امید تھی، اس نے تشکر آمیز نظروں سے اس کی طرف دیکھا تو شاہ بخت مسکرا دیا۔
"اچھا اب جلدی سے مجھے گرما گرم چائے پلائیں آپ کے ہاتھ کے بنائے ہوئے مزیدار پکوڑے کھا کر تو چائے کی طلب بڑھ گئی ہے۔ شاہ بخت نے ہلکے پھلکےانداز میں کہا۔
"ابھی لائی ' ادا تم اپنے کمرے میں جاؤ،وہاں بھجواتی ہوں۔"