SIZE
1 / 5

ہم نہ ہوتے تو کسی اور کے چرچے ہوتے

خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے

رے قسمت اک غلطی نادانی عمر میں کی گئی غلطی متت شه تو کہنے کو فرانے گئے ساری زندگی کو ازینوں میں جھونک گئی غلطی کبھی

شازیہ چوہدری نے اپنے ناول تیرے نام کی شہرت میں لکھا تھا "زمانہ بڑا بھلکڑ ہوا کرتا ہے" مطلب اسے کہنے کو ہر روز نئی داستان چاہیے ہوتی ہے' جب نئی ملتی ہے تو پرانی پر مٹی ڈال دی جاتی ہے' مگر کیا کیا جائے کہ زمانہ تو شاید حقیقتا بھلکڑ ثابت ہوا تھا مگر گھر والے بڑے ذہین طالبات کی طرح اک اک پل ابر کیے ہوۓ تھے سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے' اگر دو دن سکون سے گزر گئے تو تیسرے دن اوقات یاد دلانا نہ بھولتے تھے' اونہہ' یہ مت سوچیے گھر والوں میں کوئی سوتیلی ماں یا بہنیں بھائی ہیں ایک دم سگی والی ماں اور باپ اور بہن بھائی ہیں ' مگر ہاۓ رے قسمت ایک نادانی عمر میں کی گئی غلطی ساری زندگی کو ازیتوں میں جھونک گئی' غلطی بھی کوئی عم خاص نہیں ہے وہی ایک گھسا پٹا موضوع جسے سب محبت کہتے ہیں ، مگر خدا کو حاضرناظر جان کر کہتی ہوں کہ میں نے جان بوجھ کر محبت نہیں کی' ناولوں، رسالوں کی شیدائی اگر جان بوجھ کر وقت گزاری کے لیے کی ہوتی تو پھر اقراء معیز احمد کے ہیرو جیسا ہیرو ڈھونڈتی "اسامہ ملک" کوئی نبیلہ عزیز کے ہیرو جیسا " دل آور شاہ" یا نگہت عبداللہ کے ہیرو جیسا " شاہ سکندر حیات"

محبت نجانے کب کیوں کیسے گئی تھی مجھے خود بھی علم نہیں ہے' وہ کوئی بہت خوبصورت ' ہینڈسم بندہ نہیں تھا کوئی امیر کبیر بھی نہیں تھا' ہاں البتہ وہ بہت ذہین تھا پڑھائی کا شیدائی ٹائپ بندہ لوفر لفنگا بھی نہیں تھا اک سلجھا ہوا با کردار بہت اچھا انسان تھا، بس میرا نصیب برا کہ محبت ہوگئی اور پھر اس محبت نے وہ دن دکھائے کہ الامان' مگر محبت ہے کہ کہتی ہے اک بار پھر اس موڑ پر جاؤں توپھر اسی انسان سے محبت کروں میں 'پھر محبت کا انتخاب کروں اور میں پھر سید کرارحسین شاہ دنیا کو ہر چیز سے بڑھ کر چاہوں ، مگر یہ دنیا زمانہ کب سمجھتا ہے، مجھے بھی نہیں سمجھ پایا، اک محبت کے بدلے دکھوں ، اذیتوں' طعنوں اورشک کے سوا کچھ نہیں ملا، اب تو زندگی سے تھک ہار کر بیٹھ گئی ہوں کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی سوائے موت کے' مگر موت تو حرام ہوتی ہے، کچھ سمجھ نہیں آرہا دو تین دن کی بھوک پیاسں نے ویسے ہی سب گڈ مڈ کر دیا ہے' سر بھاری ہو رہا ہے اور دماغ کام کرنا چھوڑ رہا ہے۔"