SIZE
3 / 11

" یار۔۔۔۔ پاپا نہیں مانتے ناں۔ ضدی ہیں وہ۔" باسق نے جھنجلا کر کہا تو عشبہ منہ بنا کر رہ گئی۔ اس کا ننھا سا دل ڈول رہا تھا اور پھر شفیقہ بیگم میاں اور بچوں کے ساتھ آسٹریلیا شفٹ ہو گئیں۔ شفیقہ بیگم ایسے گئیں کہ پہلی بار چھ سال بعد آئیں۔ جب باسق بیس سال کا تھا۔ بسیم اٹھارہ اور عبرہ سولہ سال کی تھی۔ شفیقہ اپنے سسرال اسلام آباد میں ہی زیادہ رہیں۔ وہیں پر ان کا اپنا گھر بھی تھا۔ اتنے عرصے میں عشبہ جو سولہ سال کی تھی میٹرک کر چکی تھی۔ حفصہ میٹرک میں تھی۔ اسجد گریجویشن کر رہا تھا۔ عشبہ اور باسق نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ ویسے تو اسکائپ وغیرہ پہ بات ہو جاتی تھی مگر آب یوں آمنا سامنا ہوا تھا بلو کلر کے کاٹن کے سوٹ میں لمبے بالوں والی معصوم گڑیا جیسی عشبہ باسق کے دل میں اترتی چلی گئی۔ یہی حال عشبہ کا تھا۔ دبلا پتلا سا مگر ہینڈسم سا باسق کتنا اچھا لگ رہا تھا۔ دونوں نے ڈھیر ساری باتیں کی تھیں۔ بچے بھی اپنے رشتہ داروں سے واقف تھے ۔ حفصہ اور بسیم کی آپس میں اتنی نہیں بنتی تھی دونوں ہی لا ابالی تھے مگر باسق اور عشبہ ایک دوسرے پر جان دیتے تھے جبکہ اسجد اور عبرہ بھی ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ کچھ عرصہ رہ کر وہ واپس چلے گئے کچھ سال گزار کر باسق' عبرہ اور بسیم کی پڑھائی مکمل ہونے کے بعد شادی کرنے کا پروگرام تھا۔ عشبہ بہت افسردہ تھی مگر باسق بہت سی امیدیں دلا کر ' اچھے اچھے خواب دکھا کر کسی حد تک اسے مطمئن کر گیا تھا کہ چند سالوں بعد تو ہمیں ہمیشہ ہمیشہ ساتھ رہنا ہے اور عشبہ روتے روتے شرما کر گئی تھی۔

وقت تیزی سے گزر رہا تھا۔ بچوں کے تعلیمی مدارج طے ہو چکے تھےادھر عطیہ اور صبوحی شادی کی تیاریاں شروع کر چکے تھے۔ دیکھتے دیکھتے وقت گزر گیا۔ تین بچوں کی شادی کی تیاریاں آسان نہ تھیں۔ یہاں کہ کسی بچے کو بھی باہر جانے میں کوئی انٹرسٹ نہیں تھا اور وہاں انصار تھے کہ کاروبار میں الجھتے جا رہے تھے۔ نجانے کیا کیا مصروفیات تھیں۔ شفیقہ بیگم ان کی حد درجہ مصروفیت اور عدم توجہی سے بیزاری کا شکار رہنے لگی تھیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انصار صاحب میں منفی تبدیلیاں بھی آ گئیں تھیں۔ اب ان کی باتوں میں غرور اور تمکنت ہوتی۔ بات بات پر اپنی امارت کا رعب جھاڑتے ان کی نظر میں روپیہ پیسہ اور اونچا اسٹیٹس ہی سب کچھ تھا۔ بعض اوقات شفیقہ ان کی باتوں سے ڈر جاتی تھیں۔ وہ انجانے خدشات اور خوف میں گھری رہنے لگی تھیں۔ بچوں سے ذکر کیا تو بچے بھی متفکر ہو گئے ان کو بھی باپ کا رویہ نا مناسب لگتا اور ایک دن وہ سب کچھ ہو گیا جس نے شفیقہ بیگم کی ہستی کو بری طرح ہلا کر رکھ دیا۔

" سنو ' میرے ایک دوست کی فیملی ہے یہاں کل ان کے گھر چلنا ہے عبرہ کے لیے اس کے بیٹے کا رشتہ آیا ہے اور ہمیں کل وہاں جا کر بات کرنی ہے۔" الفاظ بم کی مانند شفیقہ کے سر پر دے مارے۔

" کیا۔۔۔۔۔ کیا کہہ رہے ہیں انصار۔۔۔۔۔ آپ ہوش میں تو ہیں؟"

" کیوں میں نے ایسا کیا کہہ دیا کہ تمہیں میری دماغی حالت پر شک ہو گیا۔ سب لوگ اچھا رشتہ دیکھ کر ہی شادیاں کرتے ہیں۔" انتہائی سرد لہجے میں کہا۔

" ہاں اور آپکو اس بات کا علم ہے کہ ہمارے تینوں بچوں کے رشتے ہم نے باہمی خوشی اور رضا مندی سے طے کر دیے تھے۔ ہمارے یہاں رشتے خاندان میں طے ہوتے ہیں آور آپکو بھی یا بات اچھی طرح معلوم ہے بچپن سے آج تک ہمارے گھر میں ان رشتوں کے حوالے سے باتیں ہوئی ہیں۔ ہم اور ہمارے بچے ذہنی طور پر اس رشتوں پر راضی اور خوش ہیں۔"

" ہم ۔۔۔۔ ہم نہیں؟ میں تو راضی نہیں ہوں۔۔۔۔ کیا میں اس وقت موجود تھا؟ انصار نے مضحکہ خیز انداز اپنایا۔