" اماں کچھ سنا آپ نے؟ شفیقہ آپا چاند رات کونکاح کرنا چاہتی ہیں' ہم اتنی جلدی بھلا کیسے انتظامات کر پائیں گے۔ رمضان کے دنوں میں تو ویسے بھی تیاریاں مشکل ہو جاتی ہیں ان کو تو عادت ہے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی۔ سو بکھیڑے ہوتے ہیں اب بھلا یوں منہ اٹھا کر نکاح کے دو بول تو نہیں پڑھوا دیں گے ناں' لاکھ جھنجھٹیں ہوتی ہیں۔ میرے تو ہاتھ پاؤں پھولے جا رہے ہیں۔ آپ منع کر دیں ان کو کہ ہمیں نکاح نہیں کرنا اتنی جلدی۔" عطیہ بیگم نے جب سے شفیقہ بیگم کا ارادہ سنا تھاتب سے ساس کے سر پر کھڑی جھنجھلاہٹ کا اظہار کر رہی تھیں۔
" ارے عطیہ' تم کاہے کو اتنا گھبرا رہی ہو کوئی لمبا چوڑا پروگرام تھوڑا ہی رکھنا ہے۔ دھوم دھڑکا اور شور شرابہ شادی پر کر لیں گےبس گھر کے لوگوں کے سامنے نکاح ہو جاۓ گا۔" سلطانہ بیگم نے ملائمت سے بہو کو سمجھایا۔
" چھوٹی ہو یا بڑی' اماں تقریب تو تقریب ہوتی ہے ناں۔ بیٹی کے معاملات میں ویسے بھی سو پنچائتیں نکل آتی ہیں اور۔۔۔"
" کیا ہو گیا بیگم؟" اس وقت لقمان صاحب کمرے میں داخل ہوۓ اور حواس باختہ عطیہ بیگم کو دیکھ کر سوال کیا۔
" ارے بھئی ہونا کیا ہے؟ آپ کی بہن کو تو عادت ہے شوشے چھوڑنے کی اب شوشہ چھوڑ دیا کہ چاند رات کو حفصہ اور بسیم کا نکاح کر دیا جاۓ۔"
" ارے بھئی' تو اس میں اتنا بد حواس ہونے کی کیا ضرورت ہے تم کون سا گھر میں اکیلی ہو صبوحی ہے' عشبہ ہیں۔۔۔۔"
" چپ کریں آپ ' عشبہ کا نام اس موقع پر نہ ہی لیں تو بہتر ہے ایک تو آپا نے دماغ خراب کر دیا اوپر سے آپ بھی' کر لوں گی میں سب کچھ خود ہی۔" عشبہ کا نام سن کر عطیہ بیگم کا غصہ مزید بڑھ گیا اور وہ تنتناتی ہوئی کمرے سے نکل گئیں سلطانہ بیگم اور لقمان صاحب تاسف سے انہیں دیکھتے رہ گئے۔
سلطانہ بیگم اپنے تین بچوں لقمان' شفیقہ اور اعجاز کے ساتھ آبائی گھر میں رہتی تھیں۔ شوہر کا انتقال ہو چکا تھا اپنی زمینیں اور اپنا کام تھا دونوں بھائی تعلیم سے فارغ ہو گئے تو چھوٹا سا کاروبار اسٹارٹ کر لیا۔ شفیقہ نے انٹر کا امتحان پاس کر لیا تو ان کی شادی کر دی گئی اور وہ اپنے شوہر انصار کے ساتھ دوسرے شہر شفٹ ہو گئیں۔
لقمان صاحب کی شادی عطیہ بیگم اور اعجاز صاحب کی شادی صبوحی سے کر دی گئی۔ شفیقہ کے دو بیٹے باسق اور بسیم اور ایک بیٹی عبرہ تھی۔ لقمان احمد کا ایک بیٹا اسجد اور بیٹی حفصہ تھی جبکہ اعجاز صاحب کی بیٹی عشبہ تھی۔ گھر پر سلطانہ بیگم کی مکمل حکمرانی تھی۔