SIZE
3 / 6

" اچھا ہے' یہیں سے گر کر مر کھپ جاۓ۔" بڑبڑاتے ہوۓ وہ دوبارہ سے اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔

مہرو کی چیخیں بڑھتی جا رہی تھیں۔

" کوئی میرے ابا کو بچاۓ۔" اس نے چیختے ہوۓ پکارا تھا۔ دیوار پار سے احمر نے ایک ہی جست میں چھلانگ لگائی اور بھاگ کر اس کے ساتھ ابا کو سہارا دے کر اوپر لایا۔ ابا کے چہرے پہ خجالت تھی اور مہرو کے حواس ابھی تک بحال نہیں ہوۓ تھے' اسے کلثوم بھابی سے نفرت محسوس ہوئی' کیسی عورت تھی یہ ایک گرتے مرتے ہوۓ کو بچانے کی خاطر بھی آگے نہیں بڑھی تھی۔

احمر کچھ دیر ابا کے پاس بیٹھ کر چلا گیا۔ وہ ڈھنگ سے اس کا شکریہ بھی ادا نہیں کر پائی تھی۔ لیکن رات دیر تک اس۔۔۔۔ شخص کے متعلق سوچا تھا۔ وہ ویسا ہی تھا جیسا کسی بھی لڑکی کا خواب و سکتا تھا۔ پر کشش ' باوقار' خوش لباس۔۔۔۔

آج بالاخر اس نے مہرو کو دیکھ ہی لیا تھا اور ابھی تک وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا کہ کیا تھی وہ۔۔۔ کوئی ساحرہ یا جادوگرنی ' کتابی چہرے کے خدوخال ایسے دل نشین جیسے کسی مجسمہ ساز نے صدیوں کی ریاضت سے انہیں سنوارا ہو۔ گہری سانولی رنگت اور اس پر بڑی بڑی روشن آنکھیں اس نے آج سے قبل کبھی نہیں دیکھی تھی' ہاں ایک کمی تھی اس کے چہرے پہ پھلبہری کے داغ تھے' جس نے اس کے حسن کو گہنا دیا تھا۔

لیکن اسے ان داغوں سے کیا سروکار۔۔۔۔ وہ تو اس کی آنکھوں کا اسیر ہوا تھا۔ جس نے نیند اور دل کا قرار لوٹ لیا تھا۔ اس کا دل چاہ رہا تھا وہ اس کے ابا سے ملنے جاۓ' لیکن اس کی بھابی کی تیز دھار نظریں ' اسے مہرو پہ باتیں بنانے کا موقع مل جاتا اور اس لڑکی کی رسوائی تو اسے کسی طور گوارا نہیں تھی۔

تو پھر اب کیا کرے؟ گھر میں کوئی بڑا بھی نہیں تھا۔ وہ ماں ' باپ کی اکلوتی اولاد تھا اور وہ تو کب کے راہ عدم سدھار چکے تھے۔ ایک چاچی تھیں جو ایک تو دوسرے شہر میں تھیں ۔۔۔۔ پر انہیں کہنا تو فضول ہی تھا۔ وہ تو بنتا کام بھی بگاڑ دیتیں اور اپنا رشتہ خود لے کر جانا کتنا معیوب لگتا۔ باہر دروازے کی گھنٹی بجی تھی ' جس نے سوچوں کا ارتکاز توڑ دیا تھا۔

مہرو دروازے کی گھنٹی پر انگلی رکھے ' دوپٹے سے چہرا صاف کرتی' بار بار پیچھے گلی میں جھانک رہی تھی۔ گھبراہٹ اس قدر تھی کہ سخت سردی میں بھی ٹھنڈے پسینے آ رہے تھے ۔ ابا نے آج نیا حکم سنا دیا تھا۔

" مہرو ! جو لڑکا اس روز چھت پر آیا تھا' اسے بلا کر لاؤ' میں ملنا چاہتا ہوں اس سے۔" اور اب وہ گھنٹی پر انگلی رکھے حواس باختہ سی کھڑی تھی۔ احمر نے دروازہ کھولا اور اسے سامنے دیکھ کر حیران رہ گیا۔

" وہ ابا اپ سے ملنا چاہتے ہیں۔" یہ کہہ کر وہ سر پٹ واپس بھاگی۔ احمر زیر لب مسکراتے ہوۓ تیار ہونے لگا۔

وہ گھر آیا تو ابا نے مہرو کی دوڑیں لگوا دیں' کبھی چاۓ منگوائی' کبھی اسنیکس' پھر بھی یہ کم لگا تو ابلے ہوۓ انڈے اور نگٹس تلنے کو کہہ دیا تھا۔ ابا یوں کسی کی خاطر تو کبھی نہیں کرتے تھے ۔