ہوش سنبھالتے ہی سب سے پہلا شوق جو میرے دل میں سمایا۔۔۔۔ وہ بس اتنا ہی تھا کہ مر جاؤں ۔ اور وقت سے پہلے مرنا اس جہاں میں وقت سے زیادہ زندہ رہنے سے بھی مشکل ہے۔ مطلب یہ کہ میں چاہتی تھی کہ کسی کو یہ بھی نہ لگے کہ میں نے جان بوجھ کر موت کو گلے لگایا ہے یعنی کہ خود کشی کی ہے۔ پھر جو زہر کھا کر' گلے میں دوپٹہ باندھ کر یا پھر اسی طرح کی فضول سی حرکت کر کے لڑکیاں مرتی ہیں' ایسے میں اکثر کی شکل وصورت کچھ عجیب سی ہو جاتی ہے تو میں ایسا بھی نہیں چاہتی۔ چاہتی ہوں کہ مرتے دم میری ظاہری حالت بھی درست رہے۔ جو دیکھے وہ کہے جیسے بس ابھی بھی آنکھ لگی ہو۔ جیسے کوئی معصوم فرشتہ سو رہا ہے۔ اطمینان اور ہلکی سی مسکراہٹ چہرے پر سجاۓ ' کچھ گھر کا ماحول بھی پر سکون ہو۔ سب اپنی اپنی جگہ ہنسی خوشی بسے ہوۓ ہوں کیونکہ میں یہ بھی نہیں چاہتی کہ میرے مرنے پر گھر والے سر پر ہاتھ مار کر کہیں کہ " لو بھلا یہ کوئی وقت تھا مرنے کا۔۔۔۔؟" جیسے میں نے پیدا ہونے کے لیے غلط وقت ۔۔۔ گھر۔۔۔ خاندان چنا تھا' میں اپنے مرنے کے لیے کم از کم ان سب پر نظر ثانی کر کے ہی مرنا چاہتی تھی۔ چلو پیدا ہونا تو میرے بس میں نہ تھا' مگر ہاں موت کم از کم اپنی موت کو تو میں خود باقاعدہ بہت پلاننگ کے ساتھ اپنانا چاہتی ہوں اور اسی پلاننگ کے سبب ابھی تک جیسے چلی جا رہی ہوں' مگر اس شوق کی خبر میں نے زمانے کو لگنے نہیں دی تھی کبھی۔ یہ میرا ایسا راز تھا جو میرے حواس پر مستقل سوار تھا اور اکثر انجانے میں ہی اپنے شوق کی تکمیل کا کوئی بھی سرا پاتی تو متوجہ ہو جاتی اور کچھ یوں انہماک سے اس کو سوچتی کہ خود ہی بھول جاتی کہ آخر اس وقت' اس جگہ اور اس قدر میں کیوں کر متوجہ ہوں۔
" مرنا چاہتی ہو تم؟"
اس کا یہ سوال مجھے چونکا گیا تھا' میں نے پہلی بار نظر اٹھا کر اس کے چہرے کا جائزہ لیا۔ کشادہ پیشانی ' جس پر اوپر چلتے پنکھے کی ہوا سے اڑتے بالوں کی دو چار لٹیں کبھی ادھر تو کبھی ادھر ہوتیں۔۔۔۔ گہری سیاہ بڑی بڑی آنکھیں جو شاید نیند کی کمی کے باعث اکثر ڈبڈبائی ہوئی لگتیں اور چوڑے دہانے پر گلابی ہونٹ جو معائنے کے وقت بھینچے رکھتا اور اس سوال جواب کے دوران ہلکا سا ایک طرف کو خم دیے کرسی پر ہلکے ہلکے جھولتا جاتا' مگر حیرت انگیز طور پر اس وقت یہ ہونٹ مسکرا رہے تھے ۔ " اس کو کیسے پتا چلا؟" میں نے دل میں سوچا۔
ویسے بھی ڈاکٹروں کے پاس اس طرح کے سوال جواب کا وقت بھی کہاں ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی پڑھائی میں شاید سب سے پہلے جذبات سے عاری ہو کر مریض کو دیکھنے کی تعلیم دی جاتی ہے اور پھر یوں بھی ہوتا ہے کہ کلینک میں بیٹھے بیٹھے آپ ننھے پودے سے بڑھ کر پورا درخت بن جاتے ہیں۔۔۔۔ انتظار میں بیٹھے۔۔۔۔ پہلے آنے والے ایک ایک مریض کی کئی بار گنتی کرتے ہیں۔۔۔۔