وہ اپنا چہرا بھی اپنے نظر سے دیکھے جانے کی بجاۓ وسیم کی نظر سے دیکھ رہی تھی۔ اسے کم از کم اپنے چہرے کے ساتھ یہ زیادتی نہیں کرنا چاہیے تھی۔ وہ چہرا اس کا تھا! اس پوری دنیا میں وہ اپنے چہرے کو وسیم کی نگاہ سے دیکھتی؟ اس کی خامیاں تلاشی' اس کی خوبیوں سے نگاہ چراتی' وسیم اگر اس میں خامیاں ڈھونڈتا ہے تو ڈھونڈتا پھرے ۔۔۔ وہ اگر اس چہرے کا موازنہ شمائلہ کے چہرے سے کرتا ہے تو ہزار بار کرے۔۔۔۔ وہ چہرا وسیم کا چہرا تھوڑا ہی ہے جو اسے اس چہرے سے محبت یا انس ہو۔ لیکن ماہرا کی نگاہوں کو ایسا کرنا زیب نہ دیتا تھا۔
اس نے بہت پیار سے اپنے سانولے رخسار پر ہاتھ پھیرا۔ اور محبت سے اپنی زرد آنکھوں میں جھانکا بچپن میں وہ بہت بیمار رہی تھی' یہ اس نے اپنے بڑوں سے سنا تھا۔ لمبی بیماری نے اس کے جسم کو اندر سے کھوکھلا کر ڈالا تھا۔ اور لمبے عرصے کے لیے سینک سلائی سی رہی تھی۔ پھر جوانی آئی تو بدن تو پھر بھی مارے خوشی کے کچھ بھربھرا گیا لیکن چہرا ویسا کا ویسا ہی رہا ۔ وہ سانولی رنگت اور مردہ آنکھوں والی ایک ذہین لڑکی تھی۔ یونیورسٹی میں اس کی ذہانت کے چرچے تھے' وہ اپنے ٹیچرز کی منظور نظر تھی۔ لیکن نجانے کیا بات تھی؟ وہ بہت خود اعتماد نہ تھی۔ بات کرتے' جھجکتی' لڑکوں سے کتراتی۔ شاید اس کے لاشعور میں اپنی کم روئی کا گلہ چھپا ہوا تھا۔ اسے احساس تھا کہ وہ دوسری لڑکیوں کی طرح شگفتہ اور شاداب نظر نہ آتی تھی۔ پھر اسے پہننے اوڑھنے کا کچھ ایسا خاص ڈھنگ بھی نہ تھا۔ وہ عموما ایسے رنگوں کا انتخاب کر لیتی تھی جو پہننے کے بعد بالکل بھی نہ اٹھتے تھے۔ شاید یہ اس کی ڈل شخصیت کا کرشمہ تھا جو وہ ایسے ڈل کلرز منتخب کر لیا کرتی تھی۔
اس کا جی چاہا وہ بسنتی رنگ کا جوڑا پہنے یا پھر جوگیا رنگ کا دوپٹہ اوڑھے یا فیروزی رنگ کا کرتا اور سفید شلوار پہنے۔ اس کا جی فالسئی رنگ پہننے کو مچلا۔ دھانی رنگ پہننے کو تڑپا اس کی نظر میں قوس و قزح کے رنگ چمکے۔ آہ! الماری میں براؤن اور میرون کا راج تھا۔ گرے اور ڈارک مسٹرڈ رنگ کے کئی جوڑے تھے۔ وہ جو بھی جوڑا منتخب کرتی اس کے ذہن میں نیلے زیب تن کیے شمائلہ آ کھڑی تھی۔
اس کی نگاہ گھڑی پر گئی۔ وسیم کے آنے کا وقت ہو چلا تھا۔ اس کے پاس سوچنے کے لیے زیادہ وقت نہ تھا۔ بادل نخواستہ اس نے مسٹرڈ رنگ کا ایک لباس منتخب کیا اور غسل خانے میں گھسنے سے پہلے مین ڈور کا لاک کھول دیا۔ وسیم اگر اس کے غسل کے دوران آ جاتا تو باہر کھڑا پریشان ہوتا رہتا۔
نہانے کے دوران وہ پژمردگی کا شکار رہی۔ اچھا بھلا سو کر اٹھی تھی۔ پوری دوپہر کی نیند کے بعد ذہن تازہ دم ہو گیا تھا۔ کیفیات خوشگوار تھیں۔ وہ کمرے کی کھڑکی کھول کر' ' کچن میں چاۓ بنانے کے لیے جانا چاہتی تھی۔ جب ساری خوشگوار کیفیات یکا یک ہی بھسم ہو گئی تھیں۔ اور اب وہ بے دلی سے نہاتے ہوۓ سوچ رہی تھی کہ وسیم سے بھلا یہ بات کتنے عرصے تک چھپ سکتی تھی ' جلد یا بدیر اسے شمائلہ کی امد کا علم ہو جانا تھا پھر نجانے ماہرا سے اس کا رویہ پھر سے بدل جاتا یا ویسا ہی رہتا' وہ کچھ نہ کہہ سکتی تھی۔ ایک خوش امیدی یہ بھی کی جا سکتی تھی کہ شاید شمائلہ کی آمد کا علم ہی نہ ہو پاۓ۔ یہ خیال تسکین بخش تھا ! نہا کر کپڑے پہنتی ماہرا کی کیفیات پھر خوشگوار ہونے لگیں۔ اسے چاۓ کی پیالی کی طلب ہوئی ۔ اب وہ کچن میں جا کر چاۓ بنانے کا ارادہ رکھتی تھی۔