مس نیلم نے تو سر پکڑ لیا تھا۔۔۔۔ سارے ڈڈو' مینڈک' چھپکلیاں اسی یونیورسٹی میں جمع تھے۔۔۔ آخر ہزار منتوں کے بعد رودابہ نخریلی نے ہامی بھر لی تھی مگر عین وقت پر وہ بھی دھوکہ دے گئی تھی۔۔۔۔ تبھی مجبورا عقیدت کو میدان میں آنا پڑا تھا۔۔۔ اور ہر کوئی گواہ تھا کہ پردے گرنے سے اٹھنے تک اس نے کمال کی پرفارمنس دی تھی۔ اور ایک بات کوئی نہیں جانتا تھا کہ سارے مکالمے عقیدت نے ہی لکھے تھے کیونکہ وہ اخبارات میں بھی اکثر مضامین ' افسانے لکھا کرتی تھی۔
اور جب سب کے سامنے مہمان خصوصی کی موجودگی کے درمیان مس نیلم نے کہا تھا۔
" ویسے تو میں بھی انار کلی کا رول کر سکتی تھی آخر میں اتنی اسمارٹ اور سلم سی جو ہوں۔۔۔۔ مگر پھر سوچا چلو میں اس ڈرامے کی ڈائریکٹر ہی بن جاؤں ۔۔۔۔ آخر میں آل راؤنڈر ہوں۔۔۔۔" ان کی اس بات پر مہمان خصوصی زیر لب مسکراۓ تھے مگر باقی سب نے تالیاں پیٹی تھیں ۔۔۔۔ اور مس نیلم خنداں پیشانی سے یہ تعریفی سند وصول کرتی رہی تھیں۔
مس نیلم آرٹ ٹیچر تھیں اور پوری یونیورسٹی کی جان تھیں ۔۔۔ ان کی طبعیت میں ظرافت پائی جاتی تھی ان کی کوئی اولاد نہیں تھی ان کے میاں فوت ہو چکے تھے۔۔۔۔ اور وہ اکیلی رہتی تھیں۔
جب ساون رتوں میں بارشیں کھڑکیوں کے شیشوں پر تڑ تڑ جیسی آوازیں پیدا کرتی تھیں تو وہ ڈر جاتی تھیں ۔۔۔ چوری چھپے روتی تھیں۔۔۔ ہر وقت کی ہنسی میں چھپے دکھ کوئی بھی نہ سمجھ سکا تھا ۔۔۔۔ ہنستے' ہنستے پلکیں بھیگ جاتی تھیں۔۔۔ مگر عقیدت نے وہ راز کھوج ہی لیا تھا ۔
شدت غم کو تبسم میں چھپانے والے
دل کا ہر راز نگاہوں سے عیاں ہوتا ہے
بھیگتی ہوئی رات کا سحر طاری تھا۔ ہلکی ہوا چلتی تھی تو اس میں چنبیلی کی بھینی بھینی مہک ہوتی تھی ۔۔۔ ٹیرس کا بلب جل رہا تھا۔۔۔۔وہ ٹیرس کے جھولے پر بیٹھی تھی۔۔۔۔ گود میں تکیہ رکھے اور اس کے اوپر ڈائری رکھ کر وہ کچھ لکھ رہی تھی ۔۔۔۔ آہٹ پر اس نے سر اٹھایا تھا ۔۔۔ وہ تھکے تھکے انداز میں بیگ ٹیبل پر رکھتا مقابل کرسی پر بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔ بال پیشانی پر بکھرے ہوۓ تھے اور ساحر آنکھوں سے تھکن جھانک رہی تھی۔۔۔ سفیدے کی چوٹیوں سے جھلکتے چاند کی روشنی اس پر پڑ رہی تھی۔۔۔
" آج کھانے میں کیا ہے؟" وہ پوچھ رہا تھا۔۔۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ سخت بھوکا تھا۔۔۔۔
" بریانی بھی ہے اور فش بھی فرائی کی تھی ۔۔۔۔ لے آؤں ؟" عقیدت نے پوچھا تھا ۔۔۔۔ شہریار نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ ڈائری کا ورق موڑتی سیڑھیوں سے نیچے چلی گئی تھی۔۔۔ ہوا سے سفیدے کے پتوں میں سرسراہٹ پھیل رہی تھی۔۔۔ اس نے ڈائری کا مڑا ہوا ورق وہیں سے کھولا تھا۔۔۔ زرد روشنی الفاط پر بکھرنے لگی تھی۔
" آج میں بالکل تنہا سی ہوں۔۔۔ جیسے شام ہوتی ہے جس کا وجود تاریکی سے عبارت ہے۔۔۔ میرے پاس پھولوں ' خوشبوؤں' بہاروں' خزاؤں کی داستانیں ہیں اور آج کل کی بھاگتی دوڑتی زندگی میں ایسی داستانوں میں کون دلچسپی رکھتا ہے؟ کبھی کبھی لگتا ہے کہ جیسے میں کسی بوسیدہ کتاب کا خستہ سا ورق ہوں۔ جو بالکل کورا اور اس کا وجود کسی بھی عبارت سے خالی ہے۔"