" یار! تمہارے جیسی خوب صورت پیاری پری مجھے کہاں ملے گی ؟ اس اوباش جاگیردار کے لیے لڑکیوں کی کمی نہیں ہے۔۔۔۔" اپنے ڈاکومنٹس کے فوٹو اسٹیٹ سیٹ اسٹیپل کرتے ہوۓ ایک اداس مسکراہٹ کے ساتھ جانے اس نے اس پر طنز کیا تھا یا اپنا مزاق اڑایا تھا۔
" خبردار! اس کے خلاف میں ایک لفظ نہیں سنوں گی۔" چاند ہتھیلی کی انگلی اس کی اور تنی ہوئی تھی۔ کمرے کی دیواروں نے تحیر سے یہ منظر دیکھا' جب اس نے اس کی چاند ہتھیلی تھام کے انگلی نیچے کر دی۔
" محبت کی سرشت میں زبردستی نہیں ہوتی' یہ میرا محبوب شاعر کہتا ہے۔ سو رہائی مبارک ہو تمہیں۔۔۔۔ خدا کرے مجھے کہیں بھی' کبھی بھی نظر نہ آؤ۔۔۔۔ اور اگر نظر آ بھی جاؤ۔۔۔۔ تو بہت ہی خوش و خرم نظر آؤ۔۔۔ اب جاؤ۔" اور پھر وہ ایسی گئی کہ کسی کو نطر نہ آئی۔
" وہ کہہ رہا ہےآج اسے ایک معمولی ہیلتھ ورکر کے روپ میں دیکھ ایا ہے۔" ایک چھوٹے قصبے کے چھوٹے سے پرائمری اسکول کے وزٹ کے دوران جیسے ہی وہ اور اس کے ماتحت اور اسکول کا منتظم مچھلی مارکیٹ بنی چھوٹے بچوں کی کلاس میں داخل ہوۓ ' دو عورتیں بچوں کو پولیو کے قطرے پلا رہی تھیں' ان میں سے ایک کے ہاتھ میں رجسٹر تھا' اور دوسری ایک روتے بسورتے بچے کے منہ میں پولیو کے قطرے ٹپکا رہی تھی کہ اچانک اس نے وہ چاند ہتھیلی دیکھ لی اور پھر اسی اسکول میں بیٹھا رہا' جب تک مکمل معلومات حاصل نہ کر لیں۔ جب سے لوٹا ہے' منتشر ہے' کچھ یاد نہیں اسے اس کے سوا!"
وہ کہہ رہا ہے " ایک ہی بیٹا ہے اس کا۔ سرکاری اسکول میں پڑھتا ہے' شوہر نے بھی دوسری شادی کر لی ہے۔"
اپنے بالوں کو مٹھیوں میں جکڑرکھا ہے اس نے۔۔۔۔ میں خود کو کہتے سن رہی ہوں۔
" آپ شادی کر لیں اس سے۔۔۔۔ میں آپ کو پریشان نہیں دیکھ سکتی۔"
وہ کہہ رہا ہے۔ " تم جانتی ہو نا' مجھے اس سے محبت وحبت نہیں ہے' وہ رشتے دار ہے میری۔۔۔ خون اپنی جانب کھینچتا ہے' تب ہی میں اسے اس حال میں دیکھ کر پریشان ہوں ' محبت ماضی کا حصہ اور قصہ تھی۔ اب کہاں ہے میرے پاس محبت کے لیے وقت؟"
میں مسکراتے ہوۓ اس کی پیشانی چومتی ہوں۔
" میں جانتی ہوں ' آپ نے کبھی جھوٹ نہیں بولا' نہ ہی بولیں گے۔"
کمال ہے' اس نے نظریں چرا لی ہیں۔ کیا محبت جھوٹ بولنا سکھا دیتی ہے؟
میں بندیا کی وہی دوست ہوں جسے اس نے کہا تھا کہ " اگر تمہیں میرے منگیتر کا اتنا ہی خیال ہے ' تو جاؤ تم ہی کرو اس سے شادی۔" دور کی رشتے داری تو تھی ہی' اور پھر لڑکی ہونے کے باوجود میں نے خود ہی اسے شادی کا پیغام بھیجا تھا۔
ناکامیوں سے کامیابی تک کا سفر بے شک اس نے میرے ساتھ طے کیا ہے' لیکن سوچوں ' خواہشوں اور خوابوں کے سفر میں ' میں کبھی اس کی ہم سفر نہیں رہی' میں جانتی ہوں ' وہ اج بھی اس کے خوابوں کی ملکہ ہے' اور یہ راج اور تاج چھیننے کے لیے نہیں ہوتے نا۔۔۔۔