" معلوم کیا؟ کون تھی وہ عورت؟"
" ہاں صاحب! قریبی گاؤں کی ہیلتھ ورکر تھی۔۔۔ پکی نوکری نہیں ہے' چند روزہ پولیو مہم کے لیے عارضی طور پر تین سو روپیہ یومیہ کے حساب سے عورتیں اور لڑکیاں کام کرتی ہیں' یہ بھی ان میں سے ایک تھی۔" ڈرائیور نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوۓ تفصیل بتائی۔
" اچھا۔۔۔۔ اور شوہر کیا کرتا ہے اس کا۔۔۔۔؟" ڈرائیور اس التفات پر کھلا جا رہا تھاکہ اج پہلی بار اس کا صاحب " چلو" اور " رکو" سے ہٹ کر بات کر رہا تھا۔
"صاحب! اس کا شوہر تھا تو جاگیردار آدمی ' لیکن شادی کے کچھ ماہ بعد ہی چھوڑ چکا تھا اسے' حویلی سے نکالی گئی تو ماں باپ کے پاس بھی نہ گئی ۔ جانے کیوں نہ گئی ' اب تو ایک بیٹا بھی ہے ۔ سمجھ دار ہے۔ اسی اسکول میں پڑھتا ہے' جہاں سے ہم ابھی نکلے۔۔۔" ڈرائیور گاؤں کی اندرونی گلیوں کے موڑ احتیاط سے کاٹتے ہوۓ بولا۔
" پھر رہتی کس کے پاس ہے؟" سگریٹ کے جلنے پر اسے اپنے دل کے جلنے کا گمان گزرا۔
" صاحب!سنا ہے' حویلی والوں کی ستائی ہوئی زندگی سے بیزار ایک بڑھیانے حویلی والوں کو للکارتے ہوۓ اسے اپنی کھولی میں پناہ دی تھی۔ بڑھیا تو چند سال بعد چل بسی' اب وہاں ایک کچا پکا مکان ہے اور وہ اپنے بیٹے کے ساتھ وہاں رہتی ہے' گھر میں کچھ کام کاج کرتی ہے۔ اسی پہ گزر اوقات ہے اس کی۔۔۔۔۔"
" اوہ۔۔۔۔اچھا۔۔۔۔چھا۔۔۔۔چھا۔"
ڈرائیور کا کم گو صاحب اپنے چہرے کے تاثرات چھپانے کے لیے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگا' لیکن اس کی ایک عام ہیلتھ ورکر میں اس قدر دلچسپی ' اس کے دل کی بات عیاں کرنے کو کافی تھی۔
" صاحب! آپ حکم کریں تو اسے۔۔۔۔ پیسے سے کیا نہیں ملتا؟" ڈرائیور نے انکھیں چمکاتے ہوۓ اپنے صاحب کو داد طلب نظروں سے دیکھا۔
" اپنا منہ بند رکھو اور حد میں رہو۔"
" معافی صاحب۔۔۔۔!"
گاڑی اس ہیلتھ ورکرکے علاقے سے نکل چکی تھی جہاں وہ ساری کائنات سے بے خبر اپنا ٹارگٹ پورا کرنے میں جتی ہوئی تھی۔ آدھے گھنٹے بعد ہی وہ گھر سے آفس پہنچا ہے۔ ہاں میں ہی اس کی تقرری شعبہ تعلیم میں اعلا عہدے پر ہوئی ہے ' اس کی زندگی ہر لحاظ سے قابل رشک ہے' خوب صورت بنگلہ ' گاڑی' نوکر چاکر' پڑھی لکھی بیگم۔