صحرامیں بڑا ہوا۔شبراتی بچپن سے ہی ذرا لڑاکا ،غصیلی طبیعت کا لڑکا تھا۔مگر اس کاغصہ ہر بار کسی ایسے شخص پہ نکلتا جو مظلوم ہوتا۔وہ اکشر محلے کے بچوں کو مارتا،اور اس بات پہ اپنے باپ سے مار کھاتا،عجیب سا معاملہ تھا۔گھر والے تنگ آنے لگے۔اور پھر آہستہ آہستہ ایسے واقعات بڑھتے گئے۔پھر ایک دن ساتھ والے قبیلے کی جوان لڑکی کو تھپڑ مارا ۔اور وہ زارو قطار رونے لگی ،تو اس نے ہاتھ میں پکڑی رسی کے ساتھ گلا گھونٹ کے مار دیا،یہ وہ رسی تھی جو بکریا ں چراتے وقت ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتی،اور وہ اکژ درخت سے پتے جھاڑنے کے لیئے اسے استعمال کرتا،آج اسی رسی سے اس نے کسی کی جان لے لی،اس لڑکی کا قصور کیا تھا اس نے کبھی سوچا نہیں،اور وہ اسے جان سے مارنے کے بعد کہیں بھاگا نہیں،کالو نے اسے لڑکی کا قتل کرتے ہوئے دیکھ لیا تھا،اس نے سارے قبیلے کو بتا دیا،اوراس طرح اس کی شخصیت کے حوالے سے لوگو ں میں خوف و ہراس پھیل گیا،اور قبیلے کی پنچائیت میں اے پاگل قرار دیتے ہوئے زنجیروں میں جکڑ کے بند کوٹھڑی میں رکھنے کا فیصلہ سنایا گیا،اسے یہ سزا اچھی لگی تھی،کیونکہ اسے اب خود کے ساتھ رہنا تھا،کسی سے نہیں ملنا تھا،مگر اسے اس فیصلے کے بعد بھی لگتا تھا کی اس کی زندگی میں ابھی کچھ اور ہونا بھی باقی ہے۔
اس کے بعد لو گوں نے پاگل سمجھ کر بیڑیاں لگا دی۔اور پتہ نہیں کتنے سال اس نے اس بند کوٹھڑی میں گزار دیئے مگر ہرلمحہ اس نے اس خوب رولڑکی کو سسکیوں کی آوازوں کے ساتھ گزاراور ان سسکیوں کی آواز کے ساتھ ایک کرب محسوس کیا،ہر اس آہو بکا کی آواز اسے بہت طیش دلاتی،یہ اس آواز اور اس یاد کو ہمیشہ کے لیئے مار دینا چاہتا تھا،اسے اپنی پوری زندگی میں پہلی بار کسی کام کے کرنے پر پچھتا وا ہونے لگا،اور کبھی کبھی اس کا دل چاہتا کہ وہ اپنی آواز کی طرح روز زندہ ہو ،اور وہ اسے روز مار دے،پتہ نہیں یہ کیسا رشتہ تھا،مگر اس نے اب کا سارا وقت اس لڑکی کے ساتھ گزارا۔ایک بے حد عجیب رشتہ تھا جو اس کے ساتھ جڑ گیا،
اس کا کھانا اس کی ماں اسے دینے آیا کرتی،اور اسے سمجھاتی،مگر قید کے بعد اس نے کسی سے بھی بات کرنا چھوڑ دی تھی،وہ خاموش بیٹھا رہتا،اور کچھ بھی نہ بولتا،اس ماں اداس رہنے لگی تھی،اور چند دن بعد گزر گئی،اسے کوئی فرق نہ پڑا،جنازے پہ بلانے آئے تو اس نے جانے سے انکار کر دیا،
اک دن رات کو اس قید کا دروازہ کھلا ،اور دروازے سے میرو اس کمرے میں داخل ہوا،اور اسے کہنے لگاایک شخص کو وہ مار دینا چاہتا ہے،اور وہ شخص بہت روتاہے،مگر وہ شخص جسے مارنا ہے وہ کسی دوسرے شہر میں ہے،یوں وہ اسے ریلوے اسٹیشن پر لے آیا،مگر وہ ہر چیز سے بے خبر ایک بنچ ہر بیٹھا نہ جانے کس سوچ میں گم تھا،اور پتہ نہیں کب وہ ایک نئے پلیٹ فارم پہ پہنچ چکا تھا،مگر وہ شخص کہیں نہیں تھاجو اسے حیلے بہانے سے یہاں لے آیا تھااسے نہیں پتہ تھا اب کہاں جانا ہے،مگر جو پتہ تھا وہ یہ کہ اک اگلا سفر باقی ہے،
پھیروسین پتانہیں کب سے اس مزار کی صفائی پہ معمور تھی۔آج بھی اس نے صفائی کرتے ہوئے شبراتی سے ڈھیروں باتیں کی۔اورشبراتی بنا حرکت کیئے ایک کا غذ ہر نظرے جمائے بیٹھا تھا۔
تو پھرو سین بولی۔
لگد ا اے بابے نے تونوں کلام یجیا یے۔بابے دیاں بڑیاں برکتاں نے۔ایتھے بڑے لوکی آندے نے۔پر پتا اے ہن او زمانے نہیں رہے۔ہن تے مزار دے پھل نی دینداں کوئی ہور شے تے کتھے ملنی سی۔لے ہا بولدا ای نی پیا۔
اتنے میں کالو آیا۔یہ صفا ئی کے کام پہ معمور تھا۔اور آتے ہی بولا ۔نی ماسی کدے نال گلا ں لگی جے؟
وے پترا سی کی کہناں جے۔اے شبراتی نی بولدا جے۔پتہ نہیں کی پڑدا اے۔اے تے ہدا وی نی۔
جب کالو نے پاس جا کے دیکھا تو اس کی گود میں پڑے پرچے پہ چند لفظ تحریر تھے۔
باقی ہے مگر باقی ہے
میرے دل کی بستی میں کہیں
تیری آشنائی کا چراغ
جو سحر ہونے کا منتظر ہے
لو ہے کہ بڑھتی ہے نہ گھٹتی ہے
سانس ہے کہ میری ساکن ہے
یہ کوئی آواز ہے کہ تیرا عکس
ہر بار پلک جھپکنے پہ بڑھتا ہے
سمٹتا ہے بکھرتا ہے مگرنہ مٹتا ہے
کبھی آتا جونہیں میری دسترس میں
یہ منافی ہے میرے حکم کا اب تو
تجھے پالوں اور پھر سے گنوا دوں اب تو
ہو چھٹکارا جو اس مسلسل خوف ہجراں سے
تجھے بھیجوں اور آنکھ میں چھپا لوں اب تو
باقی ہے مگر باقی ہے
میری آہ کا منتظر
تیری جستجو سے ملتزم
میری ہر سوچ کا زاویہ
کسی بھی ترچھی لکیر کی اوٹ سے
ہر دئیے کی لو سے
تیرے خیال کا سفر باقی ہے
اور شبراتی ا س دنیا سے جا چکا تھا۔۔