وہ میرا دوست نہیں تھا بس جان پہچان کا حوالہ تھا جس سے رہ چلتے کبھی کبھی ہیلو ہائے ہو جاتی تھی. میں ایسے رشتوں
سے ہمیشہ گھبراتا ہوں. جو خام خواہ مہم بن کر آپکے سر ہو جائیں. ہمیں اپنا مانو ورنہ کرتے ہیں خود کشی. ضمیر ایسا
ہی شخص تھا جو میری جان کو آرہا تھا. دفتر میں ہم دونوں ہی کلرک تھے مگر میری اوپر کی آمدن میری تنخواہ کا حساب
بے باق کر دیا کرتی تھی، یہی وجہ تھی جو مججے ضمیر سے جوڑے رکھتی تھی. ادھار کے لئے ہمیشہ اسکا ہاتھ میرے
سامنے دراز رہتا تھا اور کسی کو خیرات کی طرح ادھار دینے کا کمینہ پن ہے، اسکا مزہ میں اپنی بیوی عالیہ کے ہزار بار
کے جھگڑوں اور تنتنوں کے باوجود کھونا نہیں چاہتا تھا مگر اس دن تو حد ہی ہوگئی. میں اپنے دوستوں کے ساتھ لنچ کا
پروگرام بنا بیٹھا اور مرواتا اس سے بھی پوچ لیا کہ تم جاؤ گے؟
اسکی بانچھیں کھل گئیں. آج سے پہلے کہاں اسے کسی اچھے اور مہنگے ہوٹل کا کھانا نصیب ہوا تھا. باقی دو دوست تو اپنا
خرچہ خود کرنے والے تھے مگر مجھے مروت دکھانے کے لئے پورا حق دوستی نبھانا تھا، وہ دونوں میری حالت پر ہنس رہے
تھے. اور مجھے ضمیر پر غصّہ آرہا تھا. یہاں تک کہ ہم لنچ کے لیے کاشف کی گاڑی پر ہوٹل پہنچے. گاڑی کی رفتار دھیمی ہوئی تھی
کہ ضمیر کے وجود نے بدن تولنا شروع کر دیا. کاشف کسمسایا "manners ضمیر" دربان خود دروازہ کھولے گا.
وہ پزل ہوگیا پھر ہم باہر نکلے. کاشف نے کار کی چابی اسے دی. اس نے اسلام و علیکم کہا اور ضمیر پورے سلام کا جواب
دینے بیٹھ گیا، میں نے اسکی طرف نہیں دیکھا اور اندر کی طرف قدم بڑھا دیے.
"یہ بھی ایک فلم ہی ہے، دیکھنا اسکے بیوی بچوں کی خریت لے کر ہی آئے گا". میں منہ دبا کر ہسنے لگا. ضمیر بہت خوش آیا تھا.
"بہت اچھا انسان ہے بہت عزت سے بات کی".
میرے منہ میں کھجلی ہوئی کہ پوچھوں، پہلی بار کب کسی نے تم سے عزت سے بات کی تھی کچھ یاد ہے؟ کیوں کہ جو باتیں
ہماری زندگی میں کم کم ہوں ووہی اچھی لگتی ہیں جیسے بیوی کی شاپنگ، بچے اور ضمیر جسی لوگوں ک لیے عزت سے مخاطب
کیا جانا.