SIZE
5 / 24

وہ چٹائی بچھائی کوئی کتا ب پڑھ رہے ہوتے ۔ میں آہستہ سے ان کے پیچھے جا کر کھڑا ہو جاتا اور وہ کتاب بند کرکے کہتے ”گولو آگیا“ پھر میری طرف مڑتے اور ہنس کر کہتے ”کوئی گپ سنا “ اور میں اپنی بساط کے اور سمجھ کے مطابق ڈھونڈ ڈھانڈ کے کوئی بات سناتا تو وہ خوب ہنستے۔ بس یونہی میرے لئے ہنستے حالانکہ مجھے اب محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایسی دلچسپ باتیں بھی نہ ہوتی تھیں، پھر وہ اپنے رجسٹرسے کوئی کاغذ نکال کر کہتے لے ایک سوال نکال۔ اس سے میری جان جاتی تھی۔ لیکن ان کا وعدہ بڑا رسیلا ہوتا تھا کہ ایک سوال اور پندرہ منٹ باتیں۔ اس کے بعد ایک اورسوال اور پھر پندرہ منٹ گپیں۔ چنانچہ میں مان جاتا اور کاغذ لے کر بیٹھ جاتا۔ لیکن ان کے خود ساختہ سوال کچھ ایسے الجھے ہوتے کہ اگلی باتوں اور اگلے سوالوں کا وقت بھی نکل جاتا۔ اگر خوش قسمی سے سوال جلد حل ہو جاتا تو وہ چٹائی کو ہاتھ لگا کر پوچھتے یہ کیا ہے؟ ”چٹائی“ میں منہ پھاڑ کر جواب دیتا ”اوں ہوں“ وہ سر ہلا کر کہتے ”فارسی میں بتاؤ“ تو میں تنک کر جواب دیتا ”لوجی ہمیں کوئی فارسی پڑھائی جاتی ہے“ اس پر وہ چمکار کر کہتے ”میں جو پڑھاتا ہوں گولو.... میں جو سکھاتا ہوں.... سنو! فارسی میں بوریا، عربی میں حصیر“ میں شرارت سے ہاتھ جوڑ کر کہتا ”بخشو جی بخشو، فارسی بھی اور عربی بھی میں نہیں پڑھتا مجھے معاف کرو“ مگر وہ سنی ان سنی ایک کر کے کہے جاتے فارسی بوریا، عربی حصیر۔ اور پھر کوئی چاہے اپنے کانوں میں سیسہ بھر لیتا۔ داؤ جی کے الفاظ گھستے چلے جاتے تھے.... امی چند کتابوں کا کیڑا تھا۔ سارا دن بیٹھک میں بیٹھا لکھتا پڑھتا رہتا۔ داؤ جی اس کے اوقات میں مخل نہ ہوتے تھے، لیکن ان کے داؤ امی چند پر بھی برابر ہوتے تھے، وہ اپنی نشست سے اٹھ کر گھڑے سے پانی پینے آیا، داؤ جی نے کتاب سے نگاہیں اٹھا کر پوچھا۔ ”بیٹا؟؟؟؟ کیاہے اس نے گلاس کے ساتھ منہ لگائے لگائے ”ڈیڈ“ کہا اور پھر گلاس گھڑونچی تلے پھینک کر اپنے کمرے میں آگیا۔ داؤ جی پھر پڑھنے میں مصروف ہوگئے۔ گھر میں ان کو اپنی بیٹی سے بڑا پیار تھا۔ ہم سب اسے بی بی کہہ کر پکارتے تھے۔ اکیلے داؤ جی نے اس کا نام قرة رکھا ہوا تھا ۔ اکثر بیٹھے بیٹھے ہانک لگا کر کہتے ”قرة بیٹی یہ قینچی تجھ سے کب چھوٹے گی؟“ اور وہ اس کے جواب میں مسکر ا کر خاموش ہو جاتی۔ بے بے کو اس نام سے بڑی چڑ تھی۔ وہ چیخ کر جواب دیتی۔ ”تم نے اس کانام قرة رکھ کر اس کے بھاگ میں کرتے سینے لکھوا دئیے ہیں۔ منہ اچھا نہ ہوتو شبد تو اچھے نکالنے چاہئیں“ اور داؤ جی ایک لمبی سانس لے کر کہتے ”جاہل اس کا مطلب کیا جانیں“ اس پر بے بے کا غصہ چمک اٹھتا اور اس کے منہ میں جو کچھ آتا کہتی چلی جاتی۔ پہلے کوسنے، پھر بد دعائیں اور آخر میں گالیوں پر اتر آتی۔بی بی رکتی تو داؤ جی کہتے ”ہوائیں چلنے کو ہوتی ہیں بیٹا اور گالیاں برسنے کو، تم انہیں روکو مت، انہیں ٹوکو مت۔ پھر وہ اپنی کتابیں سمیٹتے اور اپنا محبوب حصیر اٹھا کر چپکے سے سیڑھیوں پر چڑھ جاتے۔

نویں جماعت کے شروع میں مجھے ایک بری عادت پڑ گئی اور اس بری عادت نے عجیب گل کھلائے۔ حکیم علی احمد مرحوم ہمارے قصبے کے ایک ہی حکیم تھے۔ علاج معالجہ سے ان کو کچھ ایسی دلچسپی نہ تھی لیکن باتیں بڑی مزیدار سناتے تھے۔ اولیاؤں کے تذکرے، جنوں بھوتوں کی کہانیاں اور حضرت سلیمانؑ اور ملکہ سبا کی گھریلو زندگی داستانیں ان کے تیر بہدف ٹوٹکے تھے۔ ان کے تنگ و تاریک مطلب میں معجون کے چند ڈبوں، شربت کی دس پندرہ بوتلوں اور دو آتشی شیشیوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔دواؤں کے علاوہ وہ اپنی طلسماتی تقریر اور حضرت سلیمانؑ کے خاص صدری تعویذوں سے مریض کا علاج کیا کرتے تھے۔ انہی باتوں کے لئے دور دراز گاؤں کے مریض ان کے پاس کھنچے چلے آتے اور فیض یاب ہو کر جاتے۔ ہفتہ دو ہفتہ کی صحبت میں میرا ان کے ساتھ ایک معاہدہ ہو گیا، میں اپنے ہسپتال سے ان کے لئے خالی بوتلیں اور شیشیاں چرا کے لاتا اور اس کے بدلے وہ مجھے داستان امیر حمزہ کی جلدیں پڑھنے کے لئے دیا کرتے۔

یہ کتابیں کچھ ایسی دلچسپ تھیں کہ میں رات رات بھراپنے بسترمیں دبک کر انہیں پڑھا کرتا۔ اور صبح دیر تک سویا رہتا، اماں میرے اس رویے سے سخت نالاں تھیں، ابا جی کو میری صحت برباد ہونے کا خطرہ لاحق تھا لیکن میں نے ان کو بتا دیا تھا کہ چاہے جان چلی جائے اب کے دسویں میں وظیفہ ضرور حاصل کروں گا۔ رات طلسم ہوشربا کے ایوانوں میں بسر ہوتی، اور دن بینچ پر کھڑے ہو کر، سہ ماہی امتحان میں فیل ہوتے ہوتے بچا۔ ششماہی میں بیمار پڑ گیا اور سالانہ امتحان کے موقع پر حکیم جی کی مدد سے ماسٹروں سے مل ملا کر پاس ہو گیا۔