اور اب کش مکش حیات سے تھک کر باقی ماندہ عمر سستانے اور اپنے اہل و عیال کو اپنے سایہ میں پنپتے ہوا دیکھنے کے متمنی تھے۔ تقریر کرنے اٹھے۔ ان کی آواز لرزتی ہوئی تھی اور لہجہ فریاد کا انداز لئے ہوئے تھا۔ بولے صاحبان رات رات بھر ان لوگوں کے طبلے کی تھاپ، ان کی گلے بازیاں، ان کے عشاق کی دھینگا مشتی، گالی گلوچ، شور و غل ہا ہا ہا ہو ہو ہو، سن سن کر آس پاس کے رہنے والے شرفا کے کان پک گئے ہیں۔ رات کی نیند حرام ہے تو دن کا چین مفقود۔ علاوہ ازیں ان کے قرب سے ہماری بہو بیٹیوں کے اخلاق پر جو اثر پڑتا ہے اس کا اندازہ ہر صاحب اولاد خود کر سکتا ہے۔
آخری فقرہ کہتے کہتے ان کی آواز بھرا گئی اور وہ اس سے زیادہ کچھ نہ کہہ سکے۔ سب اراکین بلدیہ کو ان سے ہمدردی تھی کیونکہ بدقسمتی سے ان کا مکان اس بازار حسن کے عین وسط میں واقع تھا۔
ان کے بعد ایک رکن بلدیہ نے جو پرانی تہذیب کے علمبردار تھے اور آثار قدیمہ کو اولادسے زیادہ عزیز رکھتے تھے تقریر کرتے ہوئے کہا۔
”حضرات! باہر سے جو سیاح اور ہمارے احباب اس مشہور اور تاریخی شہر کودیکھنے آتے ہیں جب وہ اس بازار سے گزرتے ہیں اور اس کے متعلق استفسار کرتے ہیں تو یقین کیجئے کہ ہم پر گھڑوں پانی پڑ جاتاہے۔“
اب صدر بلدیہ تقریر کرنے اٹھے۔ گو قد ٹھگنا، اور ہاتھ پاو ¿ں چھوٹے چھوٹے تھے مگر سر بڑا تھا۔ جس کی وجہ سے بردبار آدمی معلوم ہوتے تھے۔ لہجہ میں حد درجہ متانت تھی۔ بولے ”حضرات ! میں اس امر میں قطعی طور پر آپ سے متفق ہوں کہ اس طبقہ کا وجود ہمارے شہر اور ہمارے تہذیب و تمدن کے لئے باعث صد عار ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس کا تدارک کس طرح کیا جائے۔ اگر ان لوگوں کو مجبور کیا جائے کہ یہ اپنا ذلیل پیشہ چھوڑ دیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کھائیں گے کہاں سے؟“
ایک صاحب بو ل اٹھے۔ ”یہ عورتیں شادی کیوں نہیں کرلیتیں؟“
اس پر ایک طویل فرمائشی قہقہہ پڑا اور ہال کی ماتمی فضا میں یکبارگی شگفتگی کے آثار پیدا ہو گئے۔ جب اجلاس میں خاموشی ہوئی تو صاحب صدر بولے۔ ”حضرات یہ تجویز بارہا ان لوگوں کے سامنے پیش کی جا چکی ہے۔ اس کا ان کی طرف سے یہ جواب دیا جاتا ہے کہ آسودہ اور عزت دار لوگ خاندانی حرمت و ناموس کے خیال سے انہیں اپنے گھروں میں گھسنے نہ دیں گے اور مفلس اور ادنیٰ طبقہ کے لوگوں کو جو محض ان کی دولت کے لئے ان سے شادی کرنے پر آمادہ ہوں گے، یہ عورتیں خود منہ نہیں لگائیں گی۔“
اس پر ایک صاحب بولے۔ ”بلدیہ کوان کے نجی معاملوں میں پڑنے کی ضرورت نہیں۔ بلدیہ کے سامنے تو یہ مسئلہ ہے کہ یہ لوگ چاہے جہنم میں جائیں مگر اس شہر کو خالی کردیں۔“
صدر نے کہا ”صاحبان یہ بھی آسان کام نہیں ہے۔ ان کی تعداد دس بیس نہیں سینکڑوں تک پہنچتی ہے اور پھر ان میں سے بہت سی عورتوں کے ذاتی مکانات ہیں۔“
یہ مسئلہ کوئی مہینے بھر تک بلدیہ کے زیر بحث رہا اور بالآخر تمام اراکین کی اتفاق رائے یہ امر قرار پایا کہ زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کوخرید لینا چاہیے اور انہیںرہنے کے لئے شہر سے کافی دور کوئی الگ تھلگ علاقہ دے دینا چاہیے۔ ان عورتوں نے بلدیہ کے اس فیصلہ کے خلاف سخت احتجاج کیا۔ بعض نے نا فرمانی کرکے بھاری جرمانے اور قیدیں بھگتیں مگر بلدیہ کی مرضی کے آگے ان کی کوئی پیش نہ چل سکی اور چار و ناچار صبر کرکے رہ گئیں۔
اس کے بعد ایک عرصہ تک ان زنان بازاری کے مملوکہ مکانوں کی فہرستیں اور نقشے تیار ہو تے رہے اور مکانوں کے گاہک پیدا کئے جاتے رہے بیشتر مکانوں کوبذریعہ نیلام فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان عورتوں کو چھ مہینے تک شہر میں اپنے پرانے ہی مکانوں میں رہنے کی اجازت دے دی گئی تاکہ اس عرصہ میں وہ نئے علاقہ میں مکان وغیرہ بنوا سکیں۔