SIZE
1 / 8

میرا تو ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کے جو کام کرنے کے تھے وہ نہیں کیے اور جو کام کرنے کے نہیں تھے ، وہ بھی نہیں کیے ... کردہ اور نا کردہ کے درمیان ایک ایسا سفر در پیش رہا کے اب پلٹ کر دیکھتی ہوں تو لگتا ہے کے جیسے میں نہیں کوئی اور ہی اب تک سفر میں تھا ... مگر یہ کیا ...اب میری سانس ہی پھولی ہوئی ہے اور نہ ہی آنکھوں میں کوئی تھکاوٹ ہے ... جب نوکری کرتی تھی تو خود کو کوستی تھی کے دنیا اپنے گھر میں رہتی ہے ،اسے سنوارتی بناتی ہے اور میں در در کی خاک چھانتی پھرتی ہوں ... نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھی تو بھی دن بھر سواے دیواروں سے سر ٹکرانے کے اور کیا کرتی ہوں . ٹھیک ہی تو کہتے ہیں میرے شوہر صاحب کے کہ مجھ میں .... " میں " بہت ہے ... صرف اپنے بارے میں سوچتی رہتی ہوں ... کبھی دنیا کی بھی فکر کی .... کبھی یہ سوچا کے کون کون سی دریافت کر کے دوسرے ملک آگے بڑھتے جا رہے ہیں ... کیسی کیسی تعلیم حاصل کر کے لوگ لاکھوں کما رہے ہیں ... سٹینڈرڈ بنا رہے ہیں ... اور میرا سٹینڈرڈ ... تف ہے مجھ پر .... مجھ پر تو یہ لفظ ... سٹینڈرڈ آ کر جیسے " لنڈے بازار " سے لیا گیا ڈھیلا ڈھالا کوٹ جیسا بن جاتا ہے ... اور پھر .... دور سے آتی ہلکی ہلکی میڈم نور جہاں کی آواز نے باقاعدہ اپنا آپ منوا لیا تھا ... شاید میرے لئے ہی حسب معمول تھا .

گلی ، گلی میری رسوایوں کا ساتھی ہو

کوئی تو ہو جومیری وحشتوں کا ساتھی ہو