" توبہ ہے خدایا! اتنی گرمی پڑ رہی ہے کہ چیل بھی گھونسلہ چھوڑ جائے۔ " رفیعہ ابھی ابھی بازار سے لوٹی تھیں اور آتے کے ساتھ ہی گرمی کی دہائی دینا شروع ہو گئی تھیں۔
" پھر ہم سے اچھی تو چیل ہی رہی نا۔ ہم ہیں کہ اپنے گھونسلے کو چھوڑ کر نہ ادھر جا سکتے ہیں نہ ادھر۔" زارا جو دروازہ کھول کر ان کے پیچھے پیچھے ہی چلتی آ رہی تھی بڑبڑائے بنا نہ رہ سکی۔
" یہ ادھر اُدھر سے تمہاری کیا مراد ہے؟" رفیعہ کی سماعت نے اس کا فقرہ کیچ کر لیا تھا۔
" بڑی خالہ کے پاس واہ کینٹ چلے جائیں یا پھوپھو کے پاس اسلام آباد کم از کم وہاں موسم کی ایسی شدت تو نہ ہوگی۔ " گرمی سے زارا صاحبہ کی بھی خوب جان جاتی تھی اس لیے تجویز پیش کی۔
" بھرے پُرے سسرالوں میں رہتی ہیں تمہاری پھوپھو اور خالہ' ایسے ہی منہ اٹھا کر تھوڑی جایا جا سکتا ہے' سو باتیں سوچنا پڑتی ہیں۔"
" تو منہ یہاں ہی رکھ جائے گی زارا! ویسے بھی گرمی سے سارا رنگ روپ تو کملا گیا ہے۔ منہ ساتھ لے جا کر کرے گی بھی کیا ۔ " عادل جو پاس بیٹھا اخبار پڑھ رہا تھا، شرارت سے بہن کو چھیڑے بنا نہ رہ سکا۔ زارا کا بھائی سے الجھنے کا اس وقت موڈ نہیں تھا، سو اس کی بات سنی ان سنی کردی۔ ویسے بھی کسی حد تک اس کی بات میں سچائی بھی تھی۔ گرمیاں آتے ہی اس کا کھلتا ہوا گندمی رنگ ماند پڑ جاتا۔ اسی لیے تو اسے یہ موسم زہر سے بھی بد تر لگتا تھا۔