" چھوڑ اماں! دفع کر مہنگائی کو اور مہنگائی کرنے والوں کو ۔ وہ دیکھ نئی دلہن کیسا پیارا سوٹ پہن کر بیٹھی ہے۔" نازی نے سرگوشی میں بتایا اور سائیڈ والی سیٹوں کی جانب اشارہ کیا۔
" دفع دور ۔ پیارا سوٹ، ناس پیٹی سے اتنا نہیں ہوا۔ کہ اوپر چادر ہی ڈال لے دیکھ تو سارے مرد کیسے دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ رہے ہیں اور وہ اس کا مردہ بے حیا' بے غیرت۔"
"چپ کراماں۔" نازلی تو کہہ کر پچھتائی۔
"خالہ جی! تسی پچھلی سیٹوں پر چلے جاؤ۔"
کنڈیکٹرنے آ کر حکم دیا۔
" ناں پر کیوں ؟ ادھر کس مسٹنڈے کو بٹھانا ہے۔"
" اومائی! آہستہ' وہ اپنے تھانے دار صاحب آ رہے ہیں۔"
" خیر تو میں نے ٹھیک ہی بولا ہے اور تو کہہ دے۔ اپنے تھانے دار سے۔ میں کوئی مفت میں نہیں بیٹھی' ٹکٹ خریدے ہیں ۔ "
" کیوں تماشا کرتی ہے۔ ہم ساروں کو بس سے اتروا دیں گے۔"
" چل اماں اپیچھے چلتے ہیں۔ " رشید جلدی سے بولا اور بتولاں بھی اٹھ کھڑی ہوئی ۔ ملول اور اداس۔ پیسے دیے تھے لیکن زور آور کا زور چل گیا۔ وہ آخری سیٹ پر آگئے جہاں ہچکولے بہت زیادہ لگتے ہیں۔ چند سال پہلے اتنا اندھیر نہیں تھا، لوگ مظلوم کی حمایت میں بولتے تھے مگر اب تو کسی کو کسی سے کوئی سروکار ہی نہیں ہے۔ کوئی اس کے حق میں نہیں بولا۔ سب تھانے دار سے ڈر گئے تھے۔
" اماں! پھپھی کا گھر تو ڈبل اسٹوری ہے ناں، بہت سے کمروں والا۔"
" آہو! پچھلے سال آئی تھی تو بتا رہی تھی۔ بھئی ہمیں کیا تم چاہے چار اسٹوریاں بنا لو۔ ہم اپنے دو کمروں میں خوش ہیں۔"
" نہیں اماں !میں تو اس لیے کہہ رہی تھی۔ چلو ایک کمرہ تو مل جائے گا ناں۔ سچی ان ہچکولوں نے کمر کی ہڈیاں چٹخا دی ہیں ایک تو ہماری سڑکیں۔
" سڑکیں کدھر ہیں اونچے نیچے' کچے پکے راستے ہیں جن پر بس چلتی کم اچھلتی زیادہ ہے۔"
" یہ کم بخت تھانے دار' اللہ کرے اس کی پیٹی اترے۔ اچھے بھلے اگلی سیٹوں پر بیٹھے تھے۔ " بتولاں بیگم کو نئے سرے سے تاؤ آیا۔
" اے بہن کدھر جا رہی ہو ؟" اگلی سیٹ پر بیٹھی خاتون نے بوریت مٹانے کو گفتگو کا آغاز کیا۔
" گھر ہی جا رہی ہوں۔ ناں تجھے کیا کلبوں میں جانے والی لگتی ہوں۔"
" ائے ہے، دفع۔ لگتا ہے گھر سے دھکا دے کر نکالی گئی ہو۔ " خاتون نے وار کرنے کے بعد رخ موڑ لیا۔
"بتولاں کو دھکے دینے والا کوئی پیدا ہی نہیں ہوا۔