" اب بات نہ ٹال فیروزہ ! تو نے کہا تھا کہ اماں جی ! کچھ لوگ کام کرنے کے لیے پیدا ہوتے ہیں اور کچھ آرام کرنے کے لیے اور کچھ راج کرنے کے لیے۔ اب دیکھ لے، تیرے چاؤ چونچلوں نے رانیہ کو نہ گھر کا چھوڑا، نہ کام کاج کا، اب آرام کہاں کے' راج کہاں کا۔" دادو نے مزید وضاحت کی ۔ فیروزه بیگم تلملا کے رہ گئیں۔
" اماں جی! اگر تسلی نہیں دینی تو طعنے بھی مت دیں۔ عائلہ اماں کے منہ میں ایک گولی پولو کی دے دو۔" فیروزہ بیگم غصے میں بپھری شیرنی کی طرح لگ رہی تھیں۔
" مما مما!" بالائی منزل سے رانیہ کے رونے کی صدائیں بلند ہوئیں تو فیروز و بیگم کے ہاتھ سے
موبائل چھوٹ گیا۔ رانیہ زارو قطار روۓ جا رہی تھی۔ روتے روتے جب ہچکی بندھ گئی تو عائلہ نے پانی کا گلاس بڑھایا۔ بمشکل تمام دو گھونٹ بھرے، پھر دوبارہ دھاڑیں مارنے لگی۔
دراصل ملائشیا سے داماد جی کا فون آیا تھا ۔ داماد جی ان دنوں پندرہ روز کے دورے پر ملائشیا گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے وہیں سے مژدہ سنایا تھا کہ ان کی جاب ملائشیا میں ہو گئی ہے۔ انہوں نے عائلہ کو جلد از جلد سامان کی پیکنگ کا حکم دیا تھا۔ ایک ہفتے بعد ہی دونوں وہاں شفٹ ہونے والے تھے۔ اپارٹمنٹ تک پسند کر لیا گیا تھا۔
داماد جی نے خاص طور پر تاکید کی تھی کہ رانیہ اپنے تمام علمی سرٹیفکیٹس اور ڈگریاں لازما ساتھ لاۓ، کیونکہ مستقبل میں اسے بھی جاب کرنا ہوگی۔ رانیہ کو تو ملازموں سے بھی کام کروانا نہ آتا تھا، کجا کے خود کام کرنا وہ بھی دیار گیر میں۔ نہ نوکر چاکر، نہ ممی، نہ بھابی- فیروزہ بیگم کو فضا میں رانیہ کے تمام جعلی سرٹیفکیٹس اور ڈگریاں لہراتے پھڑپھڑاتے سے دکھائی دے رہے تھے۔ ان کی چہیتی لاڈلی بیٹی نے تو ان تعلیمی اداروں کی عمارت تک نہ د یکھی تھی۔
سائیڈ ٹیبل پر پڑے لیپ ٹاپ کی اسکرین پر کسی ایوارڈ کی تقریب جاری تھی۔
یہ گلیاں یہ چوبارہ، یہاں آنا نه دوباره
کہ اب ہم تو ہوئے پردیسی
کہ تیرا یہاں کوئی نہیں، کہ تیرا یہاں کوئی نہیں
" افوہ! مما!" رانیہ نے دھاڑیں مارتے مارتے سر تکیے پہ پٹخ دیا۔
" عائلہ!" فیروزہ بیگم نے عائلہ کو مخاطب کرتے ہوئے لیپ ٹاپ کی جانب اشارہ کیا۔ عائلہ بیڈ کے دوسرے کنارے کی طرف بڑھنے لگی۔ یہ سوچتے ہوۓ کہ " ممی جی! اگر آپ کہیں تو ایک گولی پولو اس لیپ ٹاپ کے منہ میں بھی دے دوں؟"