عائلہ اپنی قسمت پر نازاں تھی۔ منگنی سے رخصتی تک کا مختصر عرصہ اس نے سپنوں میں بلند و بالا مھلات میں ہی بسر کیا ۔ بعد میں عقدہ کھلا کہ فیروزہ بیگم کو دراصل ایک فل ٹائم ہاؤس کیپر کم سرونٹ کی تاحیات ضرورت تھی، جو چوبیس گھنٹے سروس مہیا کرے۔ عید، تہوار پر کوئی چھٹی نہ لے اور لب پہ حرف شکایت بھی نہ لاۓ۔ اپنی کلاس اور خاندان میں تو ایسی بہو ملنے سے رہی جو خاموش طبع، کم گو، سر نیہواڑے، نظر جھکاۓ کسی بے گناہ مجرم کی طرح ناکردہ گناہوں کی عمر قید کی سزا بھگتنے کا حوصلہ رکھتی ہو۔
اماں، ابا نے بھی یہی سوچا کہ رانی بیٹی راج کرے گی۔ مگر یہ بھی بعد میں پتا چلا کہ یہاں ایک عدد "رانی" نند کے روپ میں پہلے سے ہی موجود تھی، عائلہ تو در حقیقت "کنیز خاص" تھی۔
عائلہ ٹرے تھامے ٹی وی لاؤنج کی حدود پار کر رہی تھی کہ اچانک ددیا ساس (دادی ساس) پر کھانسی کا شدید حملہ ہوا۔ ٹرے وہیں چھوڑ کر وہ لیک کے کارنر ٹیبل کی دراز میں سفید رنگ کی "پولو" کی گولی نکالنے لگی
اس نے گولی نکال کے دادو کے منہ میں یوں اڑس دی گویا نسوار کی چٹکی داڑھ میں دبا دی ہو۔
عائلہ نے ان کی گود میں دھرا ٹی وی ریمورٹ اٹھایا اور ٹی وی آف کردیا۔
دادو کے من پسند ڈرامے کا اختتام اگرمن پسند نہ ہوتا تو دادو کو یوں ہی کھانسی کا دورہ پڑ جاتا تھا۔ اس وقت بھی دادو غم و غصے اور بے بسی کی کیفیت سے دوچار تھیں۔ عائلہ ان کی پیٹھ سہلا رہی تھی۔ طبیعت قدرے سنبھلی تھی تو دارد سے نظریں اٹھا کے عائلہ کی طرف دیکھا۔
" دلہنیا! یہ تو کیوں منہ لٹکائے ہوئے ہے؟ کہیں "پانامہ" میں تیرا نام بھی تو نہیں آ گیا؟"
حالات حاضرہ سے باخبر دادو نے چٹکلہ چھوڑا تو عائلہ کی بے ساختہ ہنسی چھوٹ گئی۔ دادو کی باتیں اکثر عائلہ کے لیے ٹرینکولائزر ثابت ہوتی تھیں۔ پوچھنے کی دیر تھی کہ عائلہ وہیں ان کے قدموں میں فلور کشن پر بیٹھ گئی اور لوکی کے حلوے پر ہونے والے اپنے اور سفیر کے " مذاکرات" گوش گزار کرنے لگی۔ دادو نے سفیر کے رویے پر اتنی تشویش کا اظہار نہیں کیا جتنی دلچسپی انہوں نے گھیئے کے حلوے میں دکھائی۔ " بس دلہنیا بس! اب اتنی تفصیل سے انہوں نے حلوے کی ترکیب مع جزئیات بیان کی ہے کہ یقین جانو خوشبو آنے لگی ہے۔ دلہن بہو! اب تو تم میرے لیے حلوہ بنا ہی ڈالو۔"
دادو نے منہ میں پولو کی گولی چوستے اور مزے لیتے ہوئے کہا۔ انہیں پولو میں بھی لوکی کے حلوہ کا ذائقہ محسوس ہو رہا تھا۔
" افوہ! اگر آپ دونوں کا کوکنگ شو ختم ہو چکا ہو تو پلیز بھابھی! میرے کمرے میں دو گولی ڈسپرین بھجوا دیں۔ سردرد سے پھٹا جا رہا ہے۔
رانیہ نے لاؤنج میں نیچے جھانکتے ہوئے غصے سے کہا۔ اس کی دھاڑ سنتے ہی عائلہ سب کچھ چھوڑ کے اٹھ کھڑی ہوئی ۔ رانیہ کا حکم بجا لانے میں تاخیر کا مطلب اپنی شامت کو دعوت شاہی دینا اور رانیہ تو اپنی ذات میں پوری سسرال تھی۔ روایتی، مشرقی، ظالمانہ سسرال، عجیب رنگ ڈھنگ تھے اس کے۔ فیروزه بیگم نے غیر معمولی توجہ اور انوکھے انداز میں اس کی پرورش کی تھی۔