SIZE
1 / 7

ملیحہ کو جو بھی دیکھتا' دیکھتا رہ جا تا' گلابی مکھڑا' سرمئی نشیلی آنکھیں۔۔۔۔

اس پر گال پر پڑتے ڈمپلز' حسن رب نے دیا' نزاکت اس نے سیکھ لی۔ اوپر سے ہر وقت نک سک سے تیار' بولتی تو گویا پھول جھڑتے، ہنستی تو سارے میں رونق پھیل جاتی۔

مہندی' چوڑیاں ' خوشبو گویا اس کی ذات کا حصہ تھیں' گورے گورے ہاتھوں پر مہندی یوں کھلتې جیسے عشق ہو۔ کوئی کہتا جس پر مہندی کا رنگ یوں کھلے' اس کا میاں بہت پیار کرتا ہے' کوئی کہتا' ساس جان چھڑکتی ہے۔ وہ ساری باتیں سنتی اور کھلکھلاتی رہتی۔ ہروقت یوں تیار پھرا کرتی جیسے کہیں جا رہی ہو اور جو کوئی پوچھ لیتا تو ترنت جواب آتا۔

" خوابوں کے دیس جا رہی ہوں۔" بے فکری' بے نیازی اس کی ذات میں یوں رچے تھے گویا وہ کسی سلطنت کی شہزادی تھی۔ شہزادی تو رفاقت نے اسے بنا کر ہی رکھا تھا۔

چار بھائیوں کی اکلوتی بہن' سب اس کے ناز نخرے اٹھاتے نہ تھکتے' اماں نے توحقیقتا سوچ رکھا تھا کہ ان کی شہزادی کو بیاہنے کوئی شہزادہ ہی آئے گا اور اس شہزادے کے انتظار میں وہ بڑے دنوں سے گن گن کر گھڑیاں گزار رہی تھیں۔

ملیحہ کی ہم عمر لڑکیاں اگرچہ اس کی سہیلیاں تھیں' لیکن اندر ہی اندر اس سے جلتی بھی تھیں' اس کی خوب صورتی' رکھ رکھاؤ کے طعنے فردا "فردا" ہر لڑکی کو اس کی ماں سے گاہے بگاہے سنے کو ملتے رہتے تھے اور اس کا بدلہ وہ اس کے لیے دل میں کینہ رکھ کرلے لیا کرتی تھیں اور وقتا فوقتا باتوں باتوں میں شوگر کوٹڈ گولیاں وہ ملیحہ کو کھلاتی رہتی تھیں۔ لیکن ملیحہ دل کی صاف تھی ' ہنس کر ٹال دیا کرتی۔

اس روز وہ نہا کر نکلی تو اماں کو گھر کی چیزیں عجلت میں سیٹ کرتے پایا۔

" یا اللہ خیر" اس نے الماری میں رکھا كلون اسپرے کیا۔ چہرے پر کریم لگائی۔ آئینے میں مہندی لگے ہاتھ دکھ رہے تھے۔ رات جو اس نے حمیرا سے مہندی کا نیا ڈیزائن بنوایا تھا' اس کا رنگ زیادہ نہیں چڑھا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی' آج ایک کوٹ اور مہندی کا لگوا لے۔ تاکہ مہندی کا گہرا رنگ چمک اٹھے۔

" ملیحہ۔۔۔" اماں اندر داخل ہوئی تھیں۔ ان کے پکارنے کے اسٹائل سے وہ سمجھ گئی کہ اگلی بات کیا ہے۔ وہ مڑ کر استفہامی نظروں سے انہیں دیکھنے لگی۔ وہ اس وقت ایک آنکھ میں کاجل لگا چکی تھی' دوسری میں لگانا باقی تھا۔

" شکورن خالہ آئی ہیں۔ دوپٹہ اوڑھ کر آنا۔" اماں نے کہا۔ وہ اثبات میں سر ہلاتی دوباره آئینے کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اسے آئینہ دیکھنا بہت اچھا لگتا تھا، کبھی نہیں ہوا تھا کہ آئینہ نے اسے برا کہا ہو۔ وہ گھوم گھوم' آگے پیچھے' ہر زاویے سے آئینہ میں خود کو دیکھتی اور آئینہ ہر بار اس کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا۔

" ارے ہاں نا' وه تعریف کی مستحق ہے۔" وہ خود کلامی کرتی

-تیار تو وہ تھی ہی' گیلے بالوں کو پشت پر یوں ہی کھلا چھوڑ کر اس نے سر پر ریڈ شیفون کا دوپٹہ سلیقے سے جمایا اور خود کو سراہتی اس چھوٹے سے کمرے میں آ گئی جسے وہ بیٹھک اور لوگ ڈرائنگ روم کہا کرتے تھے۔ اماں شکورن کے ساتھ ایک اور خاتون اور لڑکی بھی موجود تھیں۔ وہ سلام کر کے اماں کے ساتھ ہی صوفے پر ٹک گئی۔ خاتون کی ناقدانہ نظریں اب اس کا طواف کررہی ہیں اور لڑکی بھی اپنی چیل سی نگاہیں اسی پر گاڑے بیٹھی تھی۔ تھوڑی دیر بعد ہی اماں نے آنکھ سے اٹھ جانے کا اشارہ کر دیا۔ وہ معذرت کر تی ہوئی باہر آ گئی۔

" توبہ۔۔۔۔۔ ایسے دیکھتی ہیں جیسے انہیں بہو نہیں قربانی کا بکرا خریدنا ہو۔" باہر آتے ساتھ ہی اس نے گویا کھل کر سانس لیتے ہوۓ سوچا تھا۔ یہ اسے دیکھنے آنے والی کوئی چوتھی فیملی تھی۔ اسے سترہواں کیا لگا رفاقت کی تو مانو نیندیں حرام ہو گئیں۔ مزید یہ کہ اس نے ایف اے کے بعد تعلیم کو خیرباد کہہ دیا۔ سارا دن ادھر ادھر چوکڑیاں بھرتی وہ انہیں سخت ناپسند تھی۔ وہ لوگوں کی کوئی بات سننا گوارا نہیں کرتی تھیں۔ اسی لیے ملیحہ کے حسن سے خوف زدہ تھیں اور چاہتی تھیں جلد ہی اس کے جوڑ کا رشتہ ملے اور وہ عزت سے اسے اپنے گھر کا کریں۔