سارا دن کام میں مصروف رہتی۔ ماموں گھر آتے تو پھر جیسے وہ ان کے گرد چکراتی پھرتی تھی۔ کبھی دودھ گرم کر کے دے رہی ہے۔ کبھی پاؤں دبا رہی ہے۔ کبھی کپڑے استری کررہی ہے۔ امی صحیح تو کہتی تھیں۔ منیر بہت خوش قسمت ہے۔ چھوٹی مامی تو نصیر ماموں کی اتنی پروا نہیں کرتی' جتنی تائی جیراں منیر ماموں کی کرتی تھی' بلکہ تائی جیراں نے تو چھوٹی مامی کے بچوں کے بھی بہت سارے کام سنبھال لیے تھے۔ کبھی فاران کی تختی دھو کر اس پر گاچی لگا رہی ہے۔ کبھی ظہیر کے کپڑے استری کیے جا رہے ہیں۔ کبھی منی کو نہلایا جا رہا ہے۔
ان دو ہفتوں میں۔۔۔۔ میں نے تائی جیراں سب کی خدمت میں کھڑے دیکھا تھا۔ سب ہی اس سے خوش تھے۔ ایک دن وہ بالٹی اٹھاۓ دودھ دوہتی احاطے میں جا رہی تھی تو میں بھی ساتھ چل دیا۔ احاطے میں بھینس نہیں تھی ' شاید کرما نہلانے کے لیے چھپڑ پر لے گیا تھا اور ابھی واپس نہیں آیا تھا۔ تائی جیراں اور میں وہیں چبوترے پر بیٹھ گئے۔ تائی جیراں سامنے درختوں پر بیٹھے پرندوں کو دیکھ رہی تھی ۔ مجھے وہ بہت اداس لگی تھی۔ گپ چپ سی' کچھ سوچتی ہوئی۔
" آپ کیا سوچتی ہیں ' تائی جیراں؟" میں نے پوچھا۔
" کچھ نہیں ' یونہی چڑیوں کو دیکھتی ہوں۔ ہمارے گھر میں بھی درختوں پر صبح صبح ہی چڑیاں شور مچانے لگی تھیں۔"
" آپ کو اپنی دادی اور اماں یاد آتی ہیں۔ کیا وہ ادھر ملنے آتی ہیں آپ سے اور آپ جاتی ہیں' ان سے ملنے۔"
وہ کچھ دیر یونہی خاموش سی بیٹھی رہی' پھر سر اٹھا کر مجھے دیکھا۔
" کاکے!" اس کی خوب صورت آنکھوں میں جیسے نمی سی پھیل گئی تھی۔ "مائیں بھی کبھی بھولتی ہیں۔ چاہے خود ماں'دادی' نانی بن جاؤپر مائیں تو یہاں دل میں بستی ہیں کاکے! اٹھتے بیٹھتے یاد نہ بھی کرو تو منہ سے ہاۓ ماں نکل جاتا ہے۔ مجھے بھی نہ اماں بھولتی ہے' نہ دادی۔ میری دادی تو میری شادی سے کچھ عرصہ پہلے ہی مر گئی تھی اور اماں۔۔۔ اماں پتا نہیں کیسی ہو گی اب۔"
وہ پھر چپ ہو کر کچھ سوچنے لگی اور میں اسے تھی اور میں تجسس سے اسے دیکھتا تھا۔ یہ پہلا موقع ' جب وہ اپنے متعلق مجھے کچھ بتانے لگی تھی۔ ورنہ کبھی جو امی ' چھوٹی مامی اور نانی اکیلی ہوتیں تو ضرور ایک ' دوسرے سے کہتی تھیں۔
چار سال گزر گئے۔ نہ منیرا منہ سے کچھ پھوٹا ' نہ جیراں نے بتایا کہ کیسے اور کیوں۔۔۔۔۔ جیراں کے پچھلے بھی منیرے کے سنگ ٹور کر( بھیج کر) غافل ہو گئے۔"
میں اپنے اندر غبارے کی طرح پھول گیا۔ معتبر سا ہو گیا کہ یہ میں ہوں پورے گھر میں سے ' جیراں نے صرف مجھے چنا ہے اپنے متعلق کچھ بتانے کے لیے۔
" کیوں تائی جیراں! آپ اپنے چک کبھی کبھی نہیں گئیں' کیا ماموں نے منع کیا ہے؟"
" نہ ۔۔۔۔" اس نے نفی میں سر ہلایا۔ " بس جس رات تیرے مامے سے میرا نکاح ہوا تھا ' اس رات اماں نے مجھے کہا تھا۔ آج کے بعد سمجھنا تیرا میکہ کوئی نہیں۔ مڑکر پیچھے نہ دیکھنا۔“ اس نے ایک آہ بھری تھی۔
" کوئی تائی جیراں ! کیا آپ کی اماں کو ماموں اچھے نہیں لگتے تھے۔"
" نہیں۔۔۔۔ یہ بات نہیں تھی۔ بڑی (ڈونگی) گہری باتیں ہیں یہ ' یہ تو نہیں سمجھے گا۔"
" آپ بتاؤ ناں۔۔۔۔ میں کوئی چھوٹا بچہ نہیں ہوں' پورے چودہ سال کا ہوں۔"
" اچھا۔۔۔۔" وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی تھی۔
" ہاں تو بڑا ہو گیا ہے کا کے!"
کچھ دیر کے لیے وہ پھر کھو گئی تھی ۔ میں کبھی سامنے درختوں کے پیچھے افق کے کنارے سورج کے سرخ گولے کو دیکھتا تھا اور کبھی تائی جیراں کو۔ پھر اس نے سر اٹھایا۔