SIZE
1 / 5

بڑے سارے صحن میں سوکھے پتوں کا ڈھیر سا بنتا جا رہا تھا۔ سردیوں کا موسم آنکھیں بند کرکے' گہری نیند میں بس جانے کو تیار ہی تھا۔ مارچ کا مہینہ آدھا تو گزر ہی گیا تھا۔ ٹنڈ منڈ سوکھے سڑے درختوں کی ٹہنیوں پر سبز کونپلوں کی آبادی بہت تیزی سے بڑھنے لگی تھی۔ جامن کے پیڑپر نئے پھل کا بور آنے کی تیاری تھی۔ جب ہی تو سارے ہی پرانے پتے خشک ہو کر نیچے گرتے جاتے تھے۔

ایک ۔۔۔۔ دو۔۔۔۔۔ تین سارا دب ہی وہ پتے نیچے صحن میں گرتے جاتے اور سعدیہ انہیں سمیٹتے سمیٹتے تھک جاتی۔ ہاں مگر ایک بار بھی اس نے تنگ آ کر' جامن کے اس درخت کو کاٹ کر پھینک دینے کا نہیں سوچا تھا۔ تب بھی نہیں جب پکی ہوئی رسیلی جامنیں' خود ہی تڑ تڑ کر کے نیچے گرتیں اور صحن کے پکے فرش پر ایسے پکے اور گندے داغ پڑ جاتے کہ اسےروز ہی کئی گھنٹے رگڑ رگڑ کر فرش دھونا پڑتا اور داغ پھر بھی رہ جاتے۔ مگر وہ کبھی اللہ سے شکوہ نہ کرتی تھی۔

جامن کے خشک پتوں میں ادھر ادھر گری پڑی بہت سی کونپلیں بھی تو ہوتی ہیں ۔ نو خیز ' بہت نازک سی ' ننھی منی کونپلیں' ایک دو بہت چھوٹے سے' کائی سی سبز رنگت والے پتے' اس کی نظر جب ان پر پڑتی تو لمحے بھر کو وہ ٹھہر ضرور جاتی۔۔۔۔۔۔۔

شاید ایسی ہی کوئی ننھی سی کونپل اس کے وجود میں بھی تو پھوٹی تھی کبھی۔۔۔۔۔۔ کونپل سے پودا۔۔۔۔ ایک سایہ دار تناور درخت۔۔۔۔ ٹھنڈی گھنی چھاؤں' کسی بہت اپنے کے پاس ہونے کا سکون۔۔۔۔ مگر وہ کونپل تو تیز ہوا کے پہلے ہی جھونکے سے زمین پہ آن گری تھی۔ جامن کے سوکھے پتوں پر نمکین پانی کے چند قطرے پھسلتے ہوۓ جاتے اور وہ بڑی مشکل سے خود کو آسمان کی طرف شکوہ بھری نگاہ ڈالنے سے روک پاتی تھی۔ بہت تیزی سے جھاڑو لگاتے ہوۓ تیز تیز پلکیں بھی جھپکتی تھی' اپنے ہی ماں جاۓ سے اپنے آنسو چھپانے کے لیے۔

" بہت بہت مبارک ہو تجھے سعدیہ !" آمنہ نے برفی کا سارا ٹکڑا اس کے منہ میں ڈال دیا اور پھر اسے گلے لگایا تھا۔

" خیرمبارک جی۔ خیر مبارک۔ لیکن میری خوشی تب پوری ہوتی جب تو میرے ساتھ بی اے پاس کر لیتی۔" سعدیہ نے اس کا ہاتھ پکڑلیا تھا۔

" چل خیرتونے کیا یا میں نے' ایک ہی بات ہے۔" آمنہ نے اس کی انگلیاں اپنے ہاتھ سے تھوڑی پیچھے اپنی طرف کھینچی تھیں۔

" کیا تھا جو تو تھوڑی ہمت کر لیتی۔ تایا جی کو میں نے خود منا لیا تھا۔" سعدیہ کو ابھی تک قلق تھا۔

"چل چھوڑ ناں اب' رہنے دے ان کتابوں اور پڑھائیوں کی باتیں۔" آمنہ نے اس کے سرہانے کے اوپر پڑی کتاب کو ناک چڑھا کر دیکھا۔

" ہاے اللہ' میری کتاب کو ایسے نہ دیکھ سہیلی۔ یہ تو میری جان ہے۔" سعدیہ نے اس کا اشارہ سمجھ کر فورا ہی وہ کتاب اٹھا کر اپنے سینے سے لگا لی تھی۔

" اچھا جی' ایسا کیا ہے ان میں؟" آمنہ نے اس کا مذاق سا اڑایا تھا۔

" پتا ہے اس میں جو کچھ ہے ناں اگر ہم اسے اٹھا کر اپنی زندگیوں میں ڈال دیں' تو بس پھر ہر بندہ ہی سونا ہو ان میں روشنی ہے جھلیے! علم کی روشنی' وہ روشنی جو بندے کو کبھی گرنے نہیں دیتی خواہ کتنا بھی اندھیرا اس کی زندگی میں آ جاۓ۔" سعدیہ جذب کے عالم میں تھی۔

" اچھا بابا! اب تو جلدی سے یہ ساری روشنی سمیٹ اور ہامرے آنگن میں اٹھا کے لے آ۔ بھائی منصور کو بڑی ضرورت ہے اس کی۔"