پروگرام کے مطابق ان سب کو رات کے تیسرے پہر کارروائی کرنی تھی۔ ایک دوست ارشد نے شہزور پہلے ہی کرائے پر لے لی۔ اور دوسرا دوست بیلوں کو دیکھنے کے بہانے ٹینٹ کے باہر جمع مجمع میں گھس گیا۔ سپاہی رشید سے باتوں باتوں میں اس نے پتا لگا لیا کہ وہ رات جاگنے کی غرض سے چائے پیتے پیتے گزارتا ہے۔ اور اس کا تھرماس چاۓ سے بھرا رہتا ہے۔ رات کا اندھیرا جوں جوں بڑھتا گیا۔ مجمع چھٹنا شروع ہو گیا۔ جمیل کے دوست نے موقع ملتے ہی نظر بچا کر سپاہی رشید کے ترماس میں نیند کی گولیاں ملا دیں۔ مجمع جب چھٹ چکا تو سپاہی رشید چائے پیتے ہی مدہوش ہونے لگا۔ رات کا سناٹا چھا چکا تھا۔ جمیل کے دوست ارشد نے فورا اطلاع جمیل تک پہنچا دی۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ فورا جائے واردات پر آ پہنچا۔ سپاہی رشید بیچارہ کرسی پر لڑھکا نیند میں غرق تھا۔
جمیل اور اس کے ساتھیوں نے چوکنی نگاہ چاروں اطراف روڑا ئیں۔ اور برق رفتاری کے ساتھ ٹینٹ کے اندر گھس گئے۔ بلیوں کا جوڑا شان سے سر اٹھاۓ بیٹھا آنکھیں موندے جگالی کر رہا تھا۔ جمیل نے دونوں بیلوں کو ایک ایک لات رسید کی۔ دونوں بیل ہڑبڑا کر اٹھ کھڑے ہو گئے۔ ایک ساتھی گاڑی ٹینٹ کے دروازے تک لے آیا۔۔۔۔ دوسرے ساتھی نے جھٹ پٹ دونوں بیلوں کی
رسیاں کھولیں۔ اور ڈنڈا ڈولی کرتے دم مروڑتے اور دونوں کو گاڑی میں چڑھانے گئے۔ بیل چڑھانے کے بعد وہ چاروں گاڑی میں ایسے سوار ہوۓ جیسے ابھی ابھی منڈی سے جانور خرید کر لا رہے ہوں۔
آج جمیل اور اس کے ساتھیوں نے لمبا ہاتھ مارا تھا۔ یہاں سے سیدھا اپنے علاقے کے چوراہے پرسجی چھوٹی سی منڈی جانے والے تھے۔ عید میں گنتی کے چند دن باقی تھے۔ منڈی میں لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا تھا۔ ان کا ارادہ بھی یہی تھا کہ منڈی میں دونوں سجے سنورے، مخملی چادر اوڑھے دونوں بیلوں کو وہ مہنگے داموں فروخت کریں گے۔ شہزور پر سوار جمیل اور اس کے ساتھیوں کے چہروں پر فاتحانہ مسکراہٹ رقصاں تھی۔ آج کی اس کامیاب واردات کے بعد انہوں نے سوزوکی میں بیٹھے بیٹھے ہی کل کی واردات کا منصوبہ بھی بنا ڈالا تھا۔ مگر وہ اس بات سے انجان تھے کہ اس بار ان کا پالا کس سے پڑا تھا۔
" ہاں بھئی! کتنے کے لیے دونوں جانور؟" ابھی وہ لوگ جائے واردات سے کچھ ہی فاصلے پر پہنچے تھے کہ پولیس وین سے کسی نے آواز لگائی۔ گھنی مونچھوں والا سپاہی ڈرائیونگ سیٹ سے دانت نکالے۔
" چار لاکھ" پولیس وین کو دیکھ کر ان کی سیٹی گم ہو گئی تھی۔ چوری کے جانور تھے۔ وہم اور خدشات دونوں ہی خوف میں مبتلا کریں گے۔ پھر بھی جمیل نے اوسان بحال کرتے ہوۓ بڑی ہمت سے جواب دیا۔
" ماشاءاللہ' ماشاءاللہ! بہت ہی اعلا جانور ہیں۔" سپاہی بھی قربانی کے جانوروں کا شوقین معلوم ہو رہا تھا۔
" سر آپ نے بیل دیکھے۔۔۔۔۔۔ بڑے اعلا قسم کے ہیں!" سپاہی نے جوش جذبات میں ساتھ بیٹھےانسپکٹر فاروق کو بھی متوجہ کیا۔
" بات تو تمہاری ٹھیک ہے۔ مگر یہ جانور مجھے کچھ دیکھے دیکھے لگ رہے ہیں۔" انسپکٹر صاحب نے آنکھیں سکیڑے اندھیرے میں دور جاتی شہزور میں کھڑے جانور کو گھورتے ہوۓ کہا۔
سر۔۔۔۔۔۔ ان بیلوں کی بھی جسامت اور سجاوٹ آپ کے بیلوں کی طرح ہے۔ اسی لیے آپ کو دیکھے دیکھے لگ رہے ہیں ۔" سپاہی نے ہنستے ہوۓ کہا اسی اثنا انسپکٹر فاروق کے موبائل کی گھنٹی بجی۔
" ہاں بیٹا۔۔۔۔۔ بس راستے میں ہوں۔۔۔۔۔ گھر آ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔" انسپکٹر فاروق نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
" کیا۔۔۔۔۔۔ ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ رشید کہاں ہے؟" انسپکٹر فاروق اچانک پریشانی سے گویا ہوئے۔ سپاہی رفیق بھی متوجہ ہوا۔
" اوہ شٹ۔۔۔۔۔۔۔ تم لوگ پریشان نہ ہو۔ میں دیکھتا ہوں۔ بچ کے جانے نہ دوں گا اس چور کو۔" انسپکٹر فاروق طیش کے عالم میں بولے۔