" ہاں تو کیا احسان کر دیا۔ بھائی تو پوری گائے بہنوں کو عید پر دے دیتے ہیں۔ میرے پڑوس میں ہے نا شکیلہ۔ اس کا بھائی دبئی میں ہوتا ہے۔ اس بار اونٹ بھیج رہا ہے اسے۔" اب اتنی پھینکی میں سمیٹ کر بھی کیا کر لوں گی۔ کم بختوں نے بسنت پرتو پابندی لگا دی ورنہ ایک ڈور کی چرخی ابھی گھر سے نکل آتی۔ اتنا کس کے جھوٹ بولا تھا پھپھو نے کسی کو یقین آنا تو دور کی بات سبھی ہنسی چھپانے کو کونا تلاش کرنے لگے۔اب جس شکیلہ اور اس کے اونٹ والے بھائی کا قصہ پھپھو آج سنا رہی ہیں پچھلے دس سال سے اسی بھائی کے قصائی پن کے قصے ہم پھپھو کی زبانی بارہا سن چکے ہیں کہ وہ موصوف بہن کے گھر اونٹ بھیجنا تو دور کی بات ماں کو زیرہ بھی نہیں بھیجتے۔
’’آکھوں۔ ہم نے پھر یہاں وہاں منہ چھپا کر تھوڑا ہنس لیا کہ چلو کچھ تو سکون مل جائے پر بے چارے وجاہت پھوپھا تو سیدھے پھپھو کے نشانے پہ تھے۔ ان کی شعلہ بار نگاہوں سے کہاں بچتے۔ ہنسی کو بریک لگانے کے چکروں میں کھانسی آ گئی۔
" ہاۓ تمہیں کیا ہوا؟ بڑی بے وقت کھانسی آ رہی ہے۔" پھپھو چہک کر بولیں۔
" نہیں وہ میں کہہ رہا تھا بہت دیر ہو گئی ایک کپ چائے کا مل جاتا تو۔" پھوپھا بھی بڑی چالو چیز ہیں ۔ اس سنگین صورتحال میں بھی یاد رہی تو چائے۔
" ارے ہم بد نصیبوں کو چائے کون پوچھے گا۔ یہاں تو بس نوٹوں والوں کی خاطریں ہوتی ہیں ۔ پتا بھی ہے میرے میاں کو ہر ایک گھنٹے بعد چائے کی طلب ہوتی ہے لیکن نہیں۔ اب یہ کون سے پشتارے باندھ کر لاتا ہے جو اس کی خاطر ہوگی۔" لوجی لپیٹ لیا رضیہ پھپھو کے میاں کو بھی ۔ احتشام پوچھا کی عادت تھی سسرال کبھی خالی ہاتھ نہیں آتے تھے تو بس ان کی خاطر مدارت بھی اسی حساب سے کی جاتی پر اللہ کی پناہ وجاہت پھوپھا کی چائے کا طعنہ مجھے بالکل اچھا نہیں لگا تھا۔ صبح سے تین چار بار تو میں معصوم اپنے نازک ہاتھوں سے چائے بنا کر دیے چکی تھی۔ پھپھو ویسے اتنی غلط بیانی اچھی نہیں ہوتی اللہ کو حساب بھی دینا ہوتا ہے۔
رابعہ جاؤ وجاہت کے لیے چائے بناؤ ۔" دادی نے لڑائی کا رخ لونگ سے ٹرانسفر ہو کر چائے پہ آ تے دیکھا تو فورا ہی جھگڑا نبٹانے کو رابعہ چچی کو آرڈر دیا۔
" میں بنانے ہی والی تھی امی ! بس آپا کی لونگ ڈھونڈنے لگ گئی تو۔۔۔۔۔" چچی بے چاری کے بس منہ میں ہی کی بات تھی اور پھپھو کو آ گیا یاد ایک بار پھر اپنا لونگ۔
" وہ نہیں ملنے کا ایسے۔" لو ہوگئی پھر وہی کہانی شروع۔ سب کچھ ایک بار پھر دہرایا جائے گا۔
" چھوڑ دو بس اب یہ ڈرامے، یہ جھاڑو لگا لگا کر مجھے مطمئن کرنے کی کوشش مت کرو۔ خود ہی چرا کر اب خود ہی ڈھونڈنے کے فریب کر رہے ہیں سب۔"
رضیہ پھپھو سامنے سے جھاڑو تھامے آ رہی تھیں بے چاری،دردانہ پھپھو نے انہیں بھی سنا ڈالی ۔ وہ پھپھو کی طبعیت سے واقف تھیں ان کی بات کو نظر انداز کرتی دوسرے کمرے میں جا گھسیں ۔
" ارے خان صاحب کیا منہ ہی بنا کر بیٹھے ہو کچھ کہتے کیوں نہیں ۔" وہاں سے جواب نه آیا تو کرسی پہ بیٹھے وجاہت پھوپھا( جو اکثر ایسے موقعوں میں نا جانے کیسے سو جاتے تھے ) کو ٹہوکا مارا۔
" مجھے کیا بولنا تھا ؟" وہ ایک دم ہڑ بڑا کر اٹھے۔
" اچھا یہاں سب کے سامنے کیا بولنا تھا۔ وہاں گھر پر تو قینچی کی طرح زبان چلتی ہے۔ ایک پہ سو سناتے ہو یہاں گونگے کا گڑ منہ میں ڈال کر بیٹھے ہو سب کے سامنے ۔" پوپھا کا تو وہ حال تھا کہ آ دردانہ مجھے مار۔ سن کہ ٹھنڈ پڑ گئی ناں۔
" نہیں تم بات کر تو رہی تھیں اب میں کیا کہوں۔" وہ شرمندہ سے ہوۓ۔
" ہاں ! تم کیا کہو۔ یہ جو سب کے سامنے میسنے بن کے بیٹھے ہیں نا۔۔۔ اگر لوگ نہ ملی تو ساری زندگی مجھے طعنے ماریں گے۔ بھائی کی شادی پر گئی ہیروں کا لونگ گما آئی۔" اس عزت افزائی پر پوپھا تو ہمیشہ کی طرح ائیں بائیں شائیں کرنے لگے پر مرد مومن ، مرد حق ہمارے پیارے غضنفر چچا کے سینگ پھنسنے کو بے قرار آ گئے درمیان میں۔