دیکھا نا! بالکل اپنی ساس جیسی ہے' میں نے کہا تھا ناں۔"
ثمینہ کے پیچھے کھڑی عورت نے اپنے ساتھ والی سے بڑا جتاتا ہوا لہجہ بنا کر کہا اور یہ سنتے ہی کنک ( گندم) سے بھری بالٹی' شڑاپ کرکے اس کے ہاتھوں سے گر گئی تھی-
" ساس جیسی۔" یہ دولفظ کسی نیزے کی انی بن کر اس کے کانوں میں کھب گئے تھے۔
پیچھے کھڑی عورت نے تیزی سے آگے بڑھ کر دانوں کا بورا اٹھایا' جس میں ثمینہ کے ہاتھ سے گرنے والی بالٹی بھی اوندھے منہ پڑی تھی۔ اس میں موجود گندم کو بھی اس عورت نے بڑے آرام سے اپنے حصے میں شامل کیا اور پھر ثمینہ کو اونچی آواز میں بہت سی دعائیں دیتے ہوئے چل پڑی تھی۔ اور گندم کے دانوں کی کوٹھی کے ساتھ ہونق کھڑی ثمینہ یوں ہوگئی تھی جیسے کبھی سانس ہی نہ لیتی تھی۔
" ساس جیسی۔ اپنی ساس جیسی۔" اسے لگا کوٹھی میں پڑے پچاس من گندم کا ہر دانہ چیخ چیخ کربس یہی ایک بات کہہ رہا ہے۔ اس نے گھبرا کر کوٹھی کے کواڑ زور سے بند کردیے مگر کچھ کی دیر بعد پہ آواز جیسے اس گھر کی دیواروں سے بھی آنے لگی تھی۔ ثمینہ نے دونوں ہاتھ اپنے کانوں پر رکھ لیے اور پھر جانے کیا ہوا۔ وہ زمین پہ سر رکھ کر چیخ چیخ کر رونے لگی۔
حالانکہ آج کا دن جب شروع ہوا تو ثمینہ بے حد اور بے حساب خوش تھی۔ آزادی اور فراغت کا ایک عجیب سا نشہ اسے رگ و پے میں سماتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ نماز اور تلاوت تو اس کا معمول ہی تھا۔ پھر ناشتے کے بعد انور کو کھیتوں پر اور بچوں کو اسکول بھیجا اور پھر ہمیشہ کی طرح جلدی جلدی سارے گھر کی صفائی ستھرائی کر کے آئینے کی طرح چمکا ڈالا تھا اور پھر خود بھی دل و جان سے تیار ہو کر بڑی شان سے ماں جی والے بڑے نواڑی پلنگ پر دو دو گاؤ تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ کی گئی تھی۔ آج وہ پوری طرح سے آزاد تھی۔ ہر طرح کی روک ٹوک' جواب دہی اور پوچھ گچھ سے آزاد۔ گاؤ تکیوں کے غلاف جاپانی ریشم کے تھے' روئی جیسے نرم و ملائم۔ وہ بار بار ان پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔
اسے آج اپنی زندگی بھی ایسی ہی نرم وملائم اور ہلکی پھلکی لگ رہی تھی۔ ظاہر ہے لگنی ہی تھی۔ اس کی ساس کا انتقال جو ہو گیا تھا۔ ابھی پرسوں شام ہی تو چہلم تھا ان کا۔ خدا خدا کر کے رات گئے تک سارے مہمان رخصت ہوئے تھے۔ کل کا سارا دن تو بکھرے' الجھے گھر کو سنوارنے میں لگ گیا تھا اور آج کا دن۔۔۔۔
آج کا دن تو کسی خواب جیسا تھا۔ تین کنال پر محیط وسیع و عریض گھر' آتی سردیوں کی بہت خوشگوار سی دھوپ میں' اس کے سامنے سرسوں کے پھول جیسا کھلا پڑا تھا۔
" میرا گھر۔۔۔ میرا اپنا پیارا گھر' جہاں اب میری مرضی چلے گی' صرف اور صرف میری مرضی۔"
احساس ملکیت کا غرور اس قدر کیف آفریں تھا کہ ثمینہ کو اپنی آنکھیں بند ہوتی ہوئی محسوس ہو رہی تھیں اور اس سے پہلے کہ وہ ریشم کے تکیے یہ سر رکھے سو ہی جاتی' وہ عورت گندم لینے چلی آئی تھی۔
پہلے تو ثمینہ کے جی میں آئی کہ' رہنے دوں نہ ہی دوں تو بہتر ہے۔ مگر پھر کچھ سوچ کر وہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی اور اس کے بس کچھ ہی دیر بعد یہ عالم تھا کہ نک سک سے تیار ثمینہ 'کچی مٹی کے فرش پر مٹی میں ہی لتھڑی پڑی ہچکیوں کے ساتھ روتی جاتی تھی اور کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کیوں رو رہی ہے۔ ہاں مگر اس کے دل کو جیسے سب خبر تھی۔