SIZE
1 / 9

" شڑاپ۔" سکوت بھری فضا میں بید مجنوں کو زور سے گھمایا گیا تھا۔

" وہ وہاں۔۔۔۔۔" ننھی زویا نے ہاتھ آگے بڑھا کر اشارہ کیا " سورج کے پار" اور مضبوطی سے پکڑے گلے کو سینے سے لگا لیا۔ دہکتی سلاخ جیسے نانی کے پورے وجود کے آرپار ہو گئی۔ پہلے تو جان و جسم ساکت رہا۔ پھر پلکیں لرز کر بھیگ گئیں۔

" شڑاپ۔" بید مجنوں کے ساتھ بندھا باریک چمڑا بھی لہرایا تھا۔ کھریرا کیے گھوڑے کے نرم بالوں پر ہلکی سی ضرب پڑی تھی۔ سم اٹھے تھے۔ کنوتیاں ہلی تھیں۔ بانک گھومی تھی۔ پہیہ حرکت میں آیا تھا۔

کتنا کچھ ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ تو کیا اس لمحے میں پوری صدی قید تھی۔ گھوڑے نے اس طرف کا سفر شروع کر دیا جہاں بانی بھی کی ہی نہیں

اس طرف کا سفر شروع کر دیا جہاں نانی کبھی گئی ہی نہیں تھیں۔

" شڑ۔۔۔۔۔" کوچوان چمڑے کی طرح خود بھی جھوما۔۔۔۔ پہیے کا دائرہ مکمل ہوا تو گھوڑے نے رفتار پکڑ لی ۔ نانی اور گدی اور اینگل کو مضبوطی سے تھام لیا۔ جیسے انہیں اپنے بکھر جانے کا خوف لاحق ہو گیا ہو۔ بند آنکھوں سے وہ جلد ہو کر بیٹھ گئیں ' جیسے تانگے میں نہیں بلکہ کبھی آسمانی پنڈولے میں بیٹھ گئی ہوں۔ بٹھا دی گئی ہوں۔

وہ آسمان ہنڈولا ہی تو تھا۔ سلیمان کا رتھ ۔۔۔۔۔ سورج کے پار لے کر جانے والا۔۔۔۔ سورج کے پاس سے گزرنے والا ۔۔۔۔ سورج سمیت حقیقتوں کو بھی سامنے آنے والا۔۔۔۔ کیسی حقیقت تھی یہ کہ نانی کی آنکھیں چندھیائی جا رہی تھیں ، آنسو گالوں پر لکیریر لکیر کھینچے چلے جا رہے تھے۔

گھر میں طیبہ انتظار کی دہلیز پر کھڑی تھی۔ اندھیرا بڑھنے لگا تھا۔ دو گھنٹے بیت چکے تھے۔ زویا اور اماں کا کہیں اتا پتا نہیں تھا۔

انتظار کی دہلیز پر تو وہ ویسے بھی سالوں سے کھڑی تھی سالوں سے ہی تو اماں لا پتہ تھیں لیکن نجانے کیوں آج اس کے دل کی مہمیزیں جھنجھنائے ہی جا رہی تھیں اور اس جھنجھناہٹ میں آنسوؤں کے نمکین پانی کی دہک بھی شامل تھی ۔ پانی سے بھرے کنویں کو جب صدیوں تک صحراوں کی ریت اپنے اندر دفن رکھے اور انسان پیاسا ہونے کے باوجود بھی سیراب نہ ہو سکے تو بے سہارا' بے یا را ' بے کنارہ اور بے آب ره جانے کا غم بپھرے دریا کی روانی کی طرح ہی انسان کو

اماں نے بھلا ساری زندگی اس کے گھر قیام ہی کب کیا تھا کبھی ایک ہفتے کا کہہ کر جاتیں تو پانچ چھ ہفتے لگا کرآتیں۔ کبھی مہینوں غیر حاضر رہنے کا سندیسہ دیتیں اور اگلے ہی ہفتے کسی کے ساتھ واپس آ رہی ہوتیں۔ ویسے ایسا بھی کم کم ہوا تھا کہ وہ طیبہ کو اتنی خاطر میں لاتیں کہ اسے کچھ بتا کر جانے کی ذمہ داری کو سمجھتیں۔

بعض اوقات ایسا ہوتا کہ ابھی سامنے بیٹھی ہیں۔ غائب ہوتیں تو لگتا غسل خانے میں ہوں گی ۔ وہاں بھی نہ ہوتیں تو پتا چلتا فیصل آباد کی گاڑی بھی پکڑ چکی ہیں۔۔۔۔۔ بعض دفعہ کے غائب ہونے پر تمام رشتے دار بھی لا علمی کا اظہار کر دیتے طیبہ پریشان ہو جاتی۔۔۔۔۔ تلاش کرنے پر معلوم ہوتا کہ میاں جی کی قبر پر گزار رہی ہیں تب سے اتنے دن۔۔۔۔۔قبرستان کے گورکن کا لڑکا بھی ان کا منہ بولا بیٹا بنا ہوا تھا۔

بس ایسی ہی تھیں ۔۔۔۔۔ طیبہ کی اماں اور سب کی نانی -

چھریرے بدن۔۔۔۔۔ سنولائی جلد۔۔۔۔۔ سفید بال اور موٹی سونے کی لونگ کو ہمہ وقت پہنے رکھنے والی۔۔۔۔۔ جو کبھی اپنے سگے ماں باپ کو خاطر میں نہ لائیں۔ پھر خود کی کوکھ کی جنی طیبہ کیا چیز تھی ان کے آگے۔