چار ہزار کا خیمہ آٹھ ہزار میں خریدا جائے گا۔
در کار راشن کی فہرست میں آدھا سامان بڑھا کر لکھا جائے گا۔ کھاد کی بوریاں کروڑوں میں بیچی جائیں گی۔
غرض سیاست دان کے عیش ہی عیش ہو جاتے۔ دو کروڑ الیکشن میں لگا کر دو ارب کما لیتے' سودا مہنگا نہ تھا ۔ بس شرط یہ تھی کہ چکنی چپڑی باتوں سے صرف مربیوقوف بنانا آتا ہو۔
الیکشن کی بہار عروج پر تھی ۔ کیمپئین ختم ہوئی ۔ صبح دو ٹکے کے سارے آدمی جمع ہو کر اپنی بد قسمتی پر ٹھپے لگانے والے تھے ۔
کیونکہ خوش قسمتی درمیانے طبقے کے لوگوں اور گریبوں کے لیے ناپید تھی۔ یہ جوا وہ کھیلے جس کی جیب نوٹوں سے بھری ہو۔
جو دال' آٹے کے بھاؤ میں ہی پھنسا ہو ' وہ تو صرف ٹھپہ لگانا جانتے ہیں' اپنی غربت و بد قسمتی اور دو ٹکے کی شناخت پر۔
الیکشن کی آخری رات پابندی کے بعد چوری چھپے انتخابی مہم چلائی جا رہی تھی۔ ہر دو ٹکے کے آدمی کے پاس عزت مآب ایم این اے وزیر موصوف بذات خود چل کر جاتے تھے۔
کسی کو اسکول بنوانے کا آسرا ' کسی کو نوکری کا جھوٹا دلاسا' کسی گاؤں کو گیس دینے کا عارضی وعدہ۔
یہ سارے دلاسے اس موسم بہار کے لیے تھے۔
ان دو ٹکے کے آدمیوں نے ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا' مگر پھر بھی وزیر موصوف ساری رات چل چل کر لوگوں کو نیند سے اٹھا کر تجرید وعدہ لیتے رہے۔
اور آسروں کی بوسیدہ پیوند زدہ گٹھڑی انہیں تھماتے رہتے' وہ جانتے تھے کہ اس گٹھڑی سے ہیرے نہیں ' پتھر نکلیں گے۔ مگر وہ اپنی ازلی تقدیر کے آگے مجبور تھے۔
دونوں طرف کے امیدوار طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے تھے' جن کے لیے وہ لوگ شجر ممنوعہ ہی تھے۔
اس آخری رات ان دو ٹکے کے لوگوں کی قیمت کئی گنا بڑھ گئی تھی ۔ اس رات اگر دام لگانے والے کروڑوں کے دام لگاتے تب بھی دو ٹکے کے آدمی سستے پڑتے ۔وہ لوگ اپنی قیمت سے واقف نہیں تھے۔
تب ہی دو ٹکے کے رہ گئے تھے ۔ ان کو اگہی نہ تھی۔ جس اشرافیہ نے نظام بنایا' اس نے ان کو جاہل رکھنے میں ہی اپنی عافیت جانی۔ سو ان لوگوں کے دروازے پر کھڑے وزیر صاحب بندہ عاجز بنے منتیں کرتے رہے۔
اور اس دن خواتین کے پولنگ اسٹیشن پر اپنی بے روزگار ایم ایڈ بیٹی کے ساتھ آ کر اس نے مہر