" اے اللہ! قرض آسانی سے ادا کرنے کی توفیق عطا فرما' تو جانتا ہے کس مقصد کے لیے میرا رواں رواں مقروض ہوا۔ میرے بعد میرے بیٹے کو ان پیسوں کا غلام مت بنانا۔ " دل تو رو رو کر ہچکیاں لینے کو چاہ رہا تھا۔ بہت مشکلوں سے خود پر ضبط پا کر خالی قدموں سمیت گھر آیا تھا۔ زہرہ اور کرن کچن کی صفائی کر رہی تھیں۔
میں کمرے میں آ کر خالی الذہن بیٹھا ہوا تھا۔ چاند نکلتے ہی پورا شہر سڑکوں پر امڈ آیا تھا اور یہاں میں تھا اور میرے قرضدار شانے' بیٹی کا گھر بس جانے کی خوشی سے زیادہ مقروض ہونے کا غم ستاۓ جا رہا تھا۔ شاید ایک غریب کی یہی اوقات ہوتی ہے۔ دل نے پھر سسکی لی اور شانوں پر کسی کے ہاتھ نے مجھے چونکا دیا۔ زخم خوردہ نگاہوں سے پشت پر کھڑی زہرا کو دیکھا جس کی مسکراہٹ ہمیشہ کی طرح اپنا مذاق اڑاتی لگی۔
مسلے ہوۓ کپڑے' ہلکے گیلے ہو رہے تھے۔ ابھی صفائی ستھرائی سے فارغ ہو کر جو آئی تھی۔ ململ کا دوپٹہ سلیقے سے چہرے کے گرد تنا ہوا تھا۔ ہاتھ میں ایک چھوٹا سا مخملی بٹوہ تھا۔
" اکیلے پریشان ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا' جب تک مل بانٹ کر حل نہ نکالا جاۓ' مجھے پتا ہے کہ یہ چہرہ کیوں لٹکا ہوا ہے۔"
" ہنہ۔۔۔۔۔ نجومی کی جانشین جو ٹھہری۔" میں نے رخ موڑا اور دو زانو ہو کر چئیر کے پاس نیچے بیٹھ گئی۔
" یہ لیں۔۔۔۔۔ میری عمر بھر کی کمائی۔" اس نے بٹوہ میری طرف بڑھا دیا۔
" کیا ہے یہ۔۔۔۔؟"
" آپ کے لیے کاغذ کے چند نوٹ اور میری اٹھارہ سال کی ضد ' ہٹ دھرمی' ضبط نفس کا صلہ اور مصنوعی ڈرامہ بازی کا ڈراپ سین۔ یہ وہ بچت ہے جو گھر چلا کر میں کرتی رہی' آپ سے لڑ جھگڑ کر گناہ گار بن کر وصول کرتی رہی۔" اس کی آنکھیں نم ہو چلی تھیں۔
" پورے ڈھائی لاکھ روپے ہیں' کچھ کپڑے سی کر جمع کیے تھے ۔" میں اس وقت ہونق ہو چلا تھا۔
" مجھے معاف کر دیں اٹھارہ سال آپکی جیب پر حکمرانی کرتی رہی۔ آپ سے لڑتی جھگڑتی رہی صرف اس بچت کے لیے جو آج آپ کے سامنے ہے کیونکہ گھر تو آپ بھی چلا لیتے لیکن آپ کی شاہ خرچیاں یہ بچت نہ کر پاتیں' آپ کی بے موقع فضول خرچیوں سے تنگ آ گئی تھی اور کرن کے پیدا ہوتے ہی میری آنکھیں کھل گئیں کہ قلیل آمدنی میں گھر جیسے تیسے گھسیٹ کر چلا لیا جاتا ہے' پس انداز نہیں کیا جا سکتا' آپ پیسہ پانی کی طرح بہانے والے تھے جوڑنے والوں میں سے نہیں تھے ' صرف اس لیے کہ دوسرے آپکو عقیدت کی نگاہ سے دیکھیں۔ اپ کے اس طرز عمل سے میں نے لڑاکا' بیوی کا روپ دھار لیا ورنہ اپ مجھے گھر چلانے کا مستحق نہ سمجھتے۔ اصولا تو یہ پیسے مجھے کرن کی ڈیٹ فکس ہوتے ہی آپ کے حوالے کر دینے چاہیے تھے لیکن اپ شاپنگ کے سلسلے میں یاروں دوستوں کے ساتھ جاتے' بساط سے بڑھ کر خرچ کر ڈالتے' اس لیے میں نے چند دنوں کا انتظار اور کر لیا۔ اپ کو پریشان دیکھ کر دل کٹتا لیکن وہ وقت زیادہ پر آزمائش ہوتاجب یہ پیسے بھی ہمارے پاس نہ ہوتےاور ہم سچ مچ کے مقروض ہو جاتے۔" وہ بول رہی تھی اور میں سن رہا تھا۔ وہ مخملی بٹوہ اب میری مٹھی کی گرفت میں تھا۔