" ہیلو۔۔۔"
" کہاں تھیں تم؟ کتنے میسج کیے میں نے ۔" محمد ولی کا باپ چھوٹتے ہی بولا۔
" میسج ٹون آف تھی' ولی کے ابا اور میں سو گئی تھی۔ پتا نہیں کیسے۔" ولی کے ابا کی غصیلی آواز نے اس کی آدھی نیند تو فورا بھگا دی تھی۔
" بس سوتی ہی رہنا۔۔۔۔ یہاں میں کتنی مشکل میں ہوں' کس قدر پریشان ہوں ' کوئی احساس نہیں ہے تمہیں۔"
" سوری۔۔۔ وہ میں دراصل ۔۔۔"
" پتا ہے میں تمہیں کچھ بتانا چاہ رہا تھا' تاکہ دل کا بوجھ کچھ ہلکا ہو ' مگر دن کو تم گھر میں ہوتی نہیں اور شام کو تمہیں کام بہت ہوتے ہیں' جو وقت بچے اس میں سو جاتی ہو۔"
وہ تلخی سے بول رہا تھا۔ عاکفہ کا حلق تک نمکین ہو گیا' مگر وہ چپ رہی' بتا بھی نہ سکی کہ وہ بھی ہرٹ ہوئی ہے' گھنٹوں روئی ہے۔
" گاڑی لگ گئی تھی باس کی مجھ سے۔۔۔" اس کی چپ کو مزید ندامت تصور کرتے ہوۓ اس نے بتایا۔ عاکفہ کا رنگ ایک دم فق ہو گیا۔
" وہ نئی گاڑی جو آپ کے باس نے پرسوں ترسوں ہی زیرو میٹر نکلوائی تھی؟"
" ہاں۔۔۔ وہی!" قدرے سست سا ہو کر اس نے جواب دیا تھا۔ عاکفہ کی سمجھ میں نہ آیا کہ اب کیا بولے' کیسے تسلی دے۔
دوپہر سے اس کے پیچھے لگا ہوں' ابھی ٹھیک ہوئی ہے۔ خرچ بہت ہو گیا ہے۔ اور باس ناراض بھی خوب ہوۓ۔"
" اللہ خیر کرے گا۔" وہ بس یہی کہہ سکی۔
" ہاں! بس دعا کرنا بہت ساری ۔۔۔ اور تم ٹھیک ہو؟" اس کے آخری تین لفطوں پہ عاکفہ جیسے تڑپ کر رہ گئی۔ دل میں گھاؤ لگا تھا اور گہرا بھی کافی تھا۔ درد کا اثر اتنی جلدی کہاں زائل ہوتا۔ اوپر سے زخمی دل بری طرح بدکا۔ کھل کے بیان ہونے کو بے تاب ہوا' مگر عاکفہ نے اسے گھرکا' چپ کی گولی دی۔
" جی الحمد اللہ۔۔۔ آپ پریشان نہ ہوں' سب ٹھیک ہو جاۓ گا۔"
" چلو ٹھیک ہے' تم پھر سو جاؤ۔"
" جی ٹھیک ہے' اللہ حافظ!" فون بند ہوا تو اسے پھر سے بے طرح رونا آیا۔ کچھ دیر فون ہاتھ میں لیےچپ چاپ بیٹھی رہی' پھر کوئی خیال آنے پہ واٹس ایپ کھولا۔ محمد ولی کا لاسٹ سین بارہ سنتالیس کا آ رہا تھا اور اب ایک ہونے میں پانچ منٹ رہ گئے تھے۔ یعنی امکان تھا کہ وہ جاگ ہی رہا ہو گا۔ اس نے وائس میسج کرنے کے لیے مائیک کے نشان پر انگوٹھا رکھا۔ کچھ بولنے کے لیے لب کھولے ہی تھے کہ پھر کچھ سوچ کر اس نے اس کی پروفائل کھولی تو نظر اسٹیٹس کی طرف بھٹکی۔
" پری پیئرنگ گرینڈ ٹسٹ۔۔ دعا کرنا سب۔" وہ جو بولنے کو ہی تھی' نئے سرے سے چپ ہو گئی۔ یہ اسٹیٹس اس نے یقینا آج ہی کہیں اپ ڈیٹ کیا تھا' کیونکہ جمعہ کی شام سے آج دوپہر تک تو اس کا اسٹیٹس " اینجوانگ ویک اینڈ" ہی تھا۔ اب وہ کیسے اس کو ڈسٹرب کرتی۔ وہ موبائل تکیے کے نیچے رکھ کے چپ کر کے لیٹ گئی۔ نیند اب اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی اور چپ۔۔۔۔ چپ نے اس کے اندر شور برپا کیا ہوا تھا۔