بس ایسا ہی کچھ یاد رہ جاتا ہے۔۔۔۔ میرے زہن کے پردوں میں میرے دوست ' احباب ' رشتہ دار' اڑوسی پڑوسی کی کچھ ایسی ہی ادھوری تصویریں نقش ہیں۔
" طبعیت تو ٹھیک ہے نا تمہاری؟"
اس نے کتاب بند کرتے ہوۓ نرمی سے پوچھا' مجھے اسی سوال کی توقع تھی' کیونکہ یہی سوال پرنسپل بھی پوچھ چکی تھیں ۔ میں جو چھٹی ہونے پر بھی اکثر بھول کر اسکول آ جاتی تھی تو اب بھلا دو دن کی چھٹی لے کر کیوں جا رہی ہوں؟
ہاں بھئی ہاں۔۔۔ کوئی شک لگ رہا ہے کیا؟ بس شوہر صاحب تشریف لا رہے ہیں اس لیے۔۔۔۔" میں نے خود کو حتی الامکان مطمئن دکھانے کی کوشش کی۔
" ارے واہ۔۔۔۔ یہ معجزہ۔۔۔۔!! مبارک ہو بھئی۔۔۔" اس نے میری آنکھوں میں دیکھتے ہوۓ۔۔۔ خوشی سے جواب دیا۔
پہلا طنز تو میں معاف کر چکی تھی مگر پر اس بات پر میں چڑ گئی۔ دو چار لمحوں کی خاموشی ہی چاہیے تھی۔۔۔ میں خود کو سنبھال کر آگے بڑھ چکی تھی۔ شاید وہ بھی میرے مزاج کی اچانک تبدیلی کو سمجھ گیا تھا۔ لہذا جلدی سے پرنسپل کے آفس کی طرف بڑھ گیا۔
گھر واپسی پر راستے بھر میں یہی سوچتی رہی تھی کہ کیسی عجیب بات ہے کہ جس سے آپ بے تکلف ہوں اور جن کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارتے ہوں ۔ یہ بھی یقین ہو کہ وہ نہ صرف آپ سے ہمدردی رکھتے ہیں' بلکہ حد درجہ آپ کی ذات سے مخلص ہیں۔ آپ ان سے مشورہ کر سکتے ہیں۔ وہ آپ کو راہ دکھا سکتے ہیں ۔ پھر بھی زندگی میں ایسا مقام آتا ہے جب ان کے لیے بھی کچھ حدود قائم کرنی پڑتی ہیں۔ ہم چاہ کر بھی ان کو بتا نہیں سکتے۔ اپنے دل کو کھول نہیں سکتے۔ بس ان کو باتوں باتوں میں سمجھا دیتے ہیں کہ ہم سے اس وقت کوئی سوال نہ کریں۔ کوئی باز پرس کام نہیں آۓ گی۔۔۔ اور میں اسے اس کی حد۔۔۔۔۔ اس کی لمٹ سمجھا کر آگے بڑھ گئی تھی اور اس نے بھی بڑی پھرتی اور چستی سے سمجھ لیا تھا۔ یہ سوچتے ہوۓ میرے منہ کا ذائقہ کڑوا ہو چکا تھا۔
کہتے ہیں کہ جس سے محبت ہو اسے کھلا چھوڑ دو۔۔۔۔ گھاس وغیرہ چر کر اگر تم سے محبت ہوئی تو واپس آ جاۓ گا ۔۔۔ مگر اتنے دنوں کے انتظار میں جو گھاس وغیرہ ہمارے بغیر وہ چر چکا ہے' اس کے لیے دل کو کس طرح بہلائیں؟
بے وفائی تو ایسی مہلک بیماری ہےجو بے وفا کو نہیں' بلکہ جس کے ساتھ بے وفائی کی جاتی ہے اس کو کھا جاتی ہے۔۔۔ اور مجھے بھی تو اندر ہی اندر چاٹ گئی یہ بے وفائی۔۔۔۔ اب جو وہ لوٹ کر آ رہا ہے تو کس بنیاد پر۔۔۔۔۔ کون سی وضاحت۔۔۔ کیا دلیل لے کر وہ میرا سامنا کرے گا۔ ہم اکیلے ہوں گے تو ایک دوسرے سے کس طرح پیش آئیں گے۔ اور یہ ملن جو سات سال بعد ہم دونوں میاں' بیوی میں ہو رہا ہے۔۔۔۔ کیسا بد رنگ' بے معنی اور بے مقصد لگ رہا ہے۔۔۔ اب لوٹنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ مجھے تو اس کے بغیر رہنے کی عادت ہو گئی ہے۔ کچھ ہمدرد میل گئے ہیں جنھوں نے کبھی میری مرضی سے اور کبھی نا فرمانی کر کے مجھے ہنسنا۔۔۔ باہر نکلنا۔۔۔ مصروف رہنا ۔۔۔ اپنا خیال رکھنا سکھا ہی دیا ہے۔ وہ میری زندگی کا ایک اہم کردار تو ہے' مگر غیر حاضر۔۔۔۔