" لوگ تھو تھو کریں گے کہ بسم اللہ کلاتھ والوں کی لڑکی نے پڑھنا شروع کر دیا اور بھائی ان پڑھ رہ گئے۔"
" تھو تھو اس پہ نہ کریں جو نہ پڑھے ' اس پہ کریں جو پڑھے۔ پھر تو ایسوں کو بھی پڑھنے کی ضرورت ہے۔"
" بڑی سبکی ہو گی۔" تائی نے کانوں کو ہاتھ لگاۓ۔
" جاہل ہوتے سبکی نہ ہوئی' عالم ہوتے سبکی ہونے لگی۔" اور اس بحث کا اختتام ابا پہ ہوا کہ جہاں تک پڑھائی جاۓ گی' پری وہان تک اڑ کر جاۓ گی۔ اماں کو اگلی فکر نے گھیرا کہ پڑھی لکھی لڑکی کے لیے پھر ایسا بر کہاں سے آۓ گا ؟ کون بتاۓ گا' گھر تک کون لاۓ گا؟
" آ جاۓ گا' پری کے لیے تو کوئی شہزادہ آۓ گا بابو سا روپ دھار کر۔"
ابا اسے شاید سچ مچ کی پری سمجھ بیٹھے تھے کہ اس کے لیے کسی شہزادے کے خواب سجانے لگے۔ سو وہ ابا کی اجازت سے کالج جانے لگی۔ پیمان سے کیا پیمان ابا نے نبھایا' تو پری نے بھی پری ہونے کا حق ادا کرتے اڑ کر کتابوں کے صحراؤں میں ساربانوں کے ہمراہ رخت سفر باندھا۔ وہ سفر جس پر ابا نے بڑے مان سے' من لگا کر کہا تھا کہ جہاں تک تعلیم جاۓ گی وہاں تک پری اڑ کر جاۓ گی۔ سو اسے ایک ایسی دنیا میں پرواز بھرنے کی اجازت بنا ڈور کے دے دی گئی' جس کا کوئی انت نہ دیکھا' نہ سنا۔۔۔۔ علم مزرع حیات' علم مزرع موت۔
بس انت ہی ہوا پھر ۔۔۔۔ ابا کی روح نے آسمان میں جاتے جاتے اسے اڑتے دیکھا' آنسو بہاۓ۔ نہ چاہتے ہوۓ بھی پر کاٹے اور اسے واپس زمین والوں میں بھیج دیا۔۔۔۔ اور بنا بال و پر کے پری زمین پر مار دی گئی۔ علم کے پھوٹتے سوتے' خشک سالی میں بدل گئے۔ پیمان ابا نے کیا تھا عمو نے نہیں کہ نبھایا جاتا۔ ابا نہ رہے تو پیمان کہاں باقی رہنا تھا؟ اور سچ میں پیمان کو لگا اب وہ باقی نہیں ہے۔
" یہ پڑھائیوں کے چونچلے اپنے گھر جا کر پورے کرنا اب ۔" تائی نے زبان اور سر دونوں ہلاۓ اور اس نے نہ زبان ہلائی نہ سر۔ ابا کے بعد بھائی بیاہ دیے گئے اور وہ الگ ہوتے گئے۔ بھرا گھر سونا ہونے لگا۔ صرف ایک چاند کنوارا رہ گیا اور ایک وہ۔
وہ سرخ رنگ پہنتی تو اماں کہتیں۔۔۔۔ " کنواری لڑکیاں سہاگنوں ولے رنگ نہیں پہنتیں۔۔۔۔" وہ لاج رنگ اوڑھ کر لال رنگ اتار دیتی۔
وہ شادی بیاہ پہ میک اپ کرتی تو تائی رگڑ رگڑ کر منہ دھلوا دیتیں ۔۔۔۔ " کنواری لڑکیاں یوں بنتی سنورتی نہیں ہیں۔۔۔۔ " اس روز کے بعد وہ کبھی نہ بنی نہ سنوری۔۔۔۔ وہ کالا رنگ پہنتی تو تائی ڈپٹنے لگتیں۔۔۔۔ " کنواری لڑکیاں ایسے ماتمی رنگ نہیں پہنتیں۔"
اور وہ اماں تائی کی شکل دیکھتی رہ جاتی کہ کنواری لڑکیاں پھر کرتی کیا ہیں۔۔۔۔؟ ان کے لیے ہر بات میں "نہیں" ہے تو "ہاں" کس بات میں ہے؟
" پتنگ اڑاۓ گی۔۔۔؟"چاند دکان سے لوٹتے ہی اس کی کلائی تھام کر اسے کھینچنے لگتا۔
" اماں مجھے ڈانٹیں گی۔۔۔ وعدے وعید یاد کروائیں گی۔" اور چاند اس پر جب چپ اوڑھ لیتا اور پری دکھ۔۔۔۔پھر ایک کے بعد ایک رشتہ ٹھکرایا جانے لگا۔