SIZE
3 / 7

اٹھاتے ہوۓ نیچے کا رخ کیا۔

" اب کے نہ جاۓ یہ اوپر۔۔۔۔۔" چاند نے کچھ غصے سے اسے لا کر چارپائی پہ پٹخا۔

" تجھے ہی شوق ہوتا ہے اسے اوپر لے جانے' چھت پہ چڑھانے اور گڈی اڑوانے کا ۔" تائی اسی پہ پل پڑیں۔ جوابا وہ کان کھجانے لگا۔

" اسے چھوڑ جاؤں تو لگتا ہے کہ آدھا اوپر اور آدھا نیچے رہ گیا ہوں۔" اور چاند کی بات پہ وہ پیٹ پکڑے' وہیں چارپائی پہ ہی ہنستے ہوۓ گول مول سی ہو گئی۔

اور اس لڑکپن سے بھی پیچھے کچھ قدم رکھو تو بچپن آتا ہے۔ مسکراتا' بانہیں پھیلا کر ' سر جھکا کر خوش آمدید کہتا' اپنے پر اٹھاتا۔ ان میں چھپے دو غم زاد اور دو ماں جاۓ دکھاتا ہے' کل ملا کر تین لڑکے اور ان تینوں کے مابین وہ لڑکی نما لڑکا۔ ان ہی جیسے پتلون قمیض پہنے' بال انگلی کی پور برابر کٹواۓ ' سر پر ٹوپی جماۓ' پیروں میں کھیڑیاں چڑھاۓ۔۔۔۔ تنگ گلی میں بلا گھماتی' سب کے چھکے چھڑاتی' گیند کراتی' کینچے اچھالتی' چھتیں پھلانگتی وہ "پیمان" عرف " پری" تھی۔

ان تین لڑکوں سے بھی بڑھ کر لڑکا' جو لڑکا بن کر دکھانے میں کوئی کسر چھوڑ بھی دیتی تو ابا یہ کہہ کر پوری کر دیتے کہ اس گھر میں چار بچے ہیں۔ تب ہی اماں تصحیح کرتیں' تین بچے اور ایک بچی۔ تو وہ جو ابا کا بچہ اور اماں کی بچی تھی' وہ چاند کی جڑواں اور اس سے پورے دو منٹ چھوٹی تھی' جسے وہ تمغے کی طرح سینے سے لگاۓ گلی گلی پھرتا تھا۔ جو چاند کی دیکھا دیکھی " میں آتی ہوں " کو " میں آتا ہوں" کہا کرتی۔ کود کر اس کی سائیکل پہ سوار ہو جاتیاور اس کے ساتھ پورے راجہ بازار کی سیر' گولا گنڈا چوستے' ریوڑیاں کھاتے'پان چباتے' کیا کرتی۔

اماں کی سلائی کے لیے ڈوریاں' بٹن ' نلکیاں خریدی جا رہی ہیں تو تائی جی کے لیے مصالحے' پراندے اور چھلے۔ اپنے لیے کبھی اردو بازار سے کتابیں تو کبھی عمو جان کے لیے بوہری بازار سے دواؤں کی شیشیاں ' اور ہوا کے سنگ سائیکل اڑاتی' وہ واپسی کا سفر چاند کو پیچھے بٹھا کر طے کرتی۔ گھر پہنچنے سے پہلے وعدے کم و عیدیں ہوتیں کہ اگر کسی کو پتا چلا کہ وہ سائیکل چلاتے بھرے بازار میں سے گزر کر آئی ہے تووہ پھر اس کی شکل کو ترس جاۓ گا۔ اور چاند بھلا جھلا تھا کہ کسی کو بتا کر اس کی شکل کو ترستا۔ وہ اس کا دم چھلا تھا تو وہ اس کی دم چھلی ۔ اماں لاکھ منع کرتیں کہ مت اسے بازار لے کر جایا کر' مگر مہینے میں ایک آدھ چکر تو لگ ہی جایا کرتا تھا۔ اور تائی برملا کہتیں۔

" آوارگی کا سایہ پڑ گیا ہے اس بھاگوں والی پر۔"

لڑکپن سے دو ہاتھ آگے بڑھی تو' اماں نے دو دھموکے اسے جڑے اور تین چاند کو اور اسے زبردستی اسے گھر بٹھایا۔ شرٹ پتلون سے قمیض شلوار تک گھسیٹ کر لائیں۔ انگلی پور برابر بال پھر شانوں کو چھونے لگے۔ اور سر پر موجود ٹوپی کو دوپٹے نے ہٹاتے ہوۓ اپنی جگہ بنا ڈالی۔ " "میں آتا ہوں" سے "میں آتی ہوں۔" کا سفر تمام ہوا تو کہیں جا کر پیمان عرف پری اماں کو اچھی لگی اور تائی کو بس گزارے لائق۔