" مما' آج تو جانے دیں نا ' میں کبھی جاتی بھی نہیں ہوں۔"
" میں جانے دوں گی تو جاؤ گی نا' آرام سے گھر میں بیٹھو' میرے ساتھ کام کرواؤ' چھٹی ہونے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ کسی دوست کے گھر اٹھ کر چل پڑو' مجھے نہیں پسند یہ آنا جانا' کتنی دفعہ منع ہو چکی ہوں پھر پوچھنے آ جاتی ہو' بہرحال اگلے سنڈے کو دیکھتی ہوں ' کچھ فرصت ملتی ہے تو میں خود لے جاؤں گی۔"
سمیرا کھانا بناتے ہوۓ نمرہ کو جھڑک رہی تھی جو اپنی دوست کے گھر جانے کے لیے اجازت مانگ رہی تھی۔
" ہاں خود لے جائیں گی اور ادھے گھنٹے ہی میں اٹھا بھی دیں گی۔" نمرہ بڑبڑائی ۔ سمیرہ بہت غصے سے ایک دم پلٹی تھی۔
" تو کیا مطلب ہے تمہارا' سارا دن وہیں ٹکے رہیں۔ ایسا کیا کام ہے' جو ادھے گھنٹے میں نہیں نپٹے گا۔ اسکول میں سارا دن گزار لینے کے بعد یہ گھروں میں ملنے کی کیا تک ہے؟"
نمرہ' ماں کو غصے میں دیکھ کر کچھ خائف سی ہو کر وہاں سے کھسک گئی۔ سمیرا اس معاملے میں بہت سخت تھی۔ اس نے انہیں بہت چھوٹی عمر سے ہی باہر جانے کی اجازت نہیں دی تھی' کبھی کبھی باہر جانا ہو تو خود ساتھ ہوتی یا ثوبان۔ قرآن پاک ' قاری صاحب گھر آ کر چاروں کو پڑھا چکے تھے۔ ٹیوشن کے لیے بھی ٹیوٹر آتی تھی' بازار آنا ہو یا کسی رشتے دار کے گھر ' سمیرا خود ساتھ ہوتی تھی۔ ٹی وی اور اخبارات جن خوفناک خبروں سے بھرے ہوۓ تھے' وہ باشعور ماؤں کے رونگٹے کھڑے کر دینے کے لیے کافی تھے' وہ باہر کے لوگوں کو تو نہیں بدل سکتی تھی۔ مگر اپنی بیٹیوں کو گھر کے اندر ضرور محفوظ رکھ سکتی تھی۔ گھر آۓ مہمانوں کے سامنے بھی' وہ ان دونوں کو کم سے کم لاتی تھی' وہ بھی اس صورت میں جبکہ مہمان کوئی مرد ہو۔
" ایمان ہے باجی؟"
سمیرا چونک کر پلٹی' شمائلہ کچن کے دروازے سے جھانک رہی تھی۔
" نہیں' ابھی تو نہیں ایا ' آؤ بیٹھو شمائلہ۔"
" وہ کچھ سامان منگوانا تھا' تو میں نے سوچا' ایمان سے کہہ دوں۔" سمیرا نے وال کلاک پر نظر ڈالی سات بج رہے تھے۔
" بس آتا ہی ہو گا۔"