" نہیں' ابھی تو سو رہی ہیں۔ دونوں تین بجے شاید اٹھ گئی تھیں۔ پانی جو بھرنا تھا۔ میری نیند بھی موٹر کی اواز پر ہی ٹوٹی تھی۔ اگر اس وقت اٹھ کر موٹر نہ لگاؤ تو پھر سارا دن پانی نہیں اتا۔۔" امی نے بتایا۔
" ہاں گرمیاں اتے ہی یہ مسلہ شدت اختیار کر جاتا ہے اور ۔۔۔ اور یہ بیٹیاں بھی کیسی پیاری نعمت ہیں ' جب تک بابل کے انگن میں ہوتی ہیں ماں ' باپ کو سکون ہی پہنچاتی رہتی ہیں اور پتا بھی نہیں چلے گا ایک دن پھر سے اڑ جائیں گی یہ چڑیاں۔" ابو کی اواز کہتے کہتے بوجھل ہو گئی۔
" جی نہیں۔ ہم کہیں نہیں جا رہے اڑ کر' آئی سمجھ ۔" مہوش نے پیچھے سے اواز لگائی۔
" اور جناب ! یہ لیجیے اپ دونوں اپنی اپنی چاۓ اور ناشتہ تھوڑی دیر بعد حلوہ پوری کے ساتھ۔" کہتے ہوۓ اس نے باری باری دونوں کو چاۓ پیش کی۔
اسی وقت ہاکر اخبار ڈال کر چلا گیا۔ تو وہ اکبار اٹھا کرلائی'ابو کو پکڑایا' پھر امی کے برابر رکھی کرسی پر اطمینان سے بیٹھ گئی' اپنا چاۓ کا کپ درمیان میں رکھی چھوٹی سی میز پر سے اٹھا لیا۔
" کیا سحرش بھی اٹھ گئی؟" ابو نے اخبار کا ربڑ بینڈ الگ کرتے ہوۓ پوچھا۔
"وہ۔۔۔ وہ تو خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔اس اضافی چھٹی کی سب سے زیادہ خوشی تو اسے تھی۔" مہوش نے کہتے ہوۓ چاۓ کا سپ لیا۔
" جی نہیں۔ ما بدولت اٹھ چکے ہیں۔ یہ کون گستاخ ہے جو ہمارے پیٹھ پیچھے " ڈرون حملے" کر رہا ہے۔"
سحرش بھی بال سمیٹتی ہوئی چلی آئی اور اپنے لیے چاۓ کا کپ تلاش کرنے لگی اور چاتھا کپ نہ پا کر اس نے مہوش کو گھورا' مگر اس گھوری کا مہوش پر کہاں اثر ہونے والا تھا۔ وہ مزے سے چاۓ کی چسکیاں لیتی رہی۔
سحرش ابو کے برابر والی کرسی پر دھپ سے بیٹھ گئی اور اس کی طرف سے پیٹھ موڑی۔ گویا ناراضی کا اظہار تھا۔ وہ ناراضی جو سیکنڈوں پر مبنی ہوتی ہے۔
" ارے ہماری پیاری بیٹی اٹھ گئی۔ تم ابھی بھی نہ اٹھتیں تو ہم یہی کہنے والے تھے۔"
ہم سے کب پیار ہے
ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
ابو نے اس کے سمیٹے ہوۓ بال پھر سے بکھیر دیے تھے اور اقبال کا شکوہ کہہ ڈالا۔
" ارے نہیں ابو! کیا بتاؤں آپ کو ' یہ پانی' اس نے بڑا ستم ڈھایا ہوا ہے ' تین بجے سے میں اور مہوش جاگ رہے تھے تو کہیں جا کے موصوف چار بجے تشریف لاۓ ۔ چھ بجے تک ہم نے نیچھے کا ٹینک اور اوپر کی ٹینکی بھری ہے۔ انکھ لگی ہی تھی کہ کھڑکی کے ذریعے آتی ہوئی اپ لوگوں کی اوازوں پہ کھل گئی اگر مجھے پتا ہوتا کہ صبح اپ لوگ یہاں بیٹھ کر چوپال لگائیں گے اور بقول امی کے حسن نثار کا " چوراہا" لگائیں گے تو میں رات میں ہی کھڑکی کے شیشے پر لکھ کر لگا دیتی کہ
سرہانے میر کے اہستہ بولو
ابھی ٹک روتےروتے سو گیا ہے